انڈیا میں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے پیر کو اسمبلی اجلاس کے دوران ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر نفرت پھیلانے پر تنقید کرتے ہوئے قرآن پاک کا حوالہ دیا اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلعم پر ’درود‘ بھیجا۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق پیر کو پارلیمان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے راہل نے کہا کہ تمام مذاہب کی عظیم ہستیوں نے عدم تشدد اور خوف کو ختم کرنے کی بات کی۔
انہوں نے کہا: ’پیغبر اسلام حضرت محمد، جن پر سلامتی ہو، نے فرمایا کہ قرآن میں ہے کہ خدا کہتے ہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، میں سننے اور دیکھنے والا ہوں۔ مطلب اسلام میں بھی کہا گیا ہے کہ ڈرنا نہیں ہے۔‘
راہل گاندھی نے کہا کہ ’بی جے پی لیڈران اپنے ہندو ہونے کے دعوؤں کے باوجود نفرت پھیلاتے ہیں۔ تاہم یہ مذہب ایسا نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ملک تشدد کا ملک نہیں ہے، یہ ملک ڈر کا ملک نہیں ہے۔ اور جو لوگ خود کو ہندو کہتے ہیں وہ 24 گھنٹے تشدد، تشدد، نفرت نفرت کے نعرے لگاتے ہیں۔‘
راہل نے اپنی تقریر کے دوران سکھ، عیسائیت، بدھ مت اور جین سمیت دیگر مذاہب کا حوالہ بھی دیا تاکہ خوف کے خاتمے کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔
اس تبصرے کے بعد ایوان میں موجود انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن لیڈر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پورے ہندو معاشرے کو ’پرتشدد‘ قرار دینا ایک سنگین مسئلہ ہے۔
اس کے ردعمل میں راہل گاندھی نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا: ’نہیں، نہیں، مودی جی، بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پورے ہندو سماج کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘
کانگریس لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی بنچوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا، جنہوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔
منگل کو لوک سبھا کے سپیکر نے راہل گاندھی کی پہلی تقریر کو قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کے خطاب کے کئی حصوں کو حذف کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تقریر سے حذف کیے گئے حصوں میں راہل گاندھی کے مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی پر مذہبی نفرت اور تشدد سے منسلک جملے شامل ہیں۔
سپیکر نے ارب پتی شخصیات گوتم اڈانی اور مکیش امبانی کے مودی اور ان کی حکومت سے گٹھ جوڑ والے جملوں کو بھی ہٹا دیا۔
بعد میں مرکزی وزرا اشونی ویشنو اور کرن رجیجو نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے راہل گاندھی کی تقریر میں ’غلطیوں‘ کی نشاندہی کرنے کے لیے سپیکر سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا گیا کہ ان کی شکایت کی تحقیق کی جائے گی۔
انڈین پارلیمانی قوانین کے تحت سپیکر ایوان میں اراکین کی جانب سے ادا کیے گئے الفاظ کو حذف یا رد کر سکتا ہے، جن کو ہتک آمیز، ناشائستہ، غیر پارلیمانی، یا غیر معزز سمجھا جائے۔
سپیکر کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ سپیکر کے اس اقدام کے باوجود ’سچائی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے منگل کو سپیکر کو خط بھی لکھا ہے جس میں حذف شدہ ریمارکس کو بحال کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی نہیں تھی بلکہ زمینی حقائق اور حقیقت پر مبنی پوزیشن سے آگاہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے ریمارکس کو ریکارڈ سے ہٹانا پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے۔‘