سی پیک کے فوائد کو افغانستان تک پہنچانا چاہتے ہیں: پاکستان

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا تک رابطے کے منصوبوں پر عمل درآمد سے افغانستان اور خطے میں امن و سلامتی کو فروغ دینے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔

پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والے مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے (ریڈیو پاکستان)

پاکستان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر کی رفتار تیز کرنے اور اربوں ڈالر کے اس منصوبے کو توسیع دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس میں علاقائی امن اور سلامتی کے لیے اس کے فوائد کو افغانستان تک پہنچانا بھی شامل ہے۔

نیویارک میں علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والے مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا تک رابطے کے منصوبوں پر عمل درآمد سے افغانستان اور خطے میں امن و سلامتی کو فروغ دینے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق منیر اکرم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک بڑی ہمسائے کی طرف سے علاقائی بالادستی کی خواہش نے سارک کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کے اصولوں کی پاسداری کے ذریعے علاقائی رابطوں کو بڑھانے پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اقوام متحدہ کے تعاون سے علاقائی اور بین علاقائی اقدامات امن، سلامتی اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں زیادہ تعاون اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے اہم ہیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان چین پر اپنا اعتماد بحال کر رہا ہے تاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے اگلے مرحلے پر کام آگے بڑھ سکے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے رواں سال مئی میں چین کے دورے سے واپسی پر اتوار کو ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا کہ ’چین کا اپنے اوپر اعتماد بحال کر رہے ہیں تاکہ سی پیک کا فیز ٹو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔‘

دوسرے مرحلے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ہم چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے کے پیرامیٹرز کی وضاحت کے لیے چینی ہم منصبوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جس میں تین شعبوں یعنی زراعت، صنعت اور ٹیکنالوجی میں کام کیا جائے گا۔‘

کیا سی پیک پر کام رک چکا ہے یا سست روی کا شکار ہے؟

سرکاری معلومات کے مطابق سی پیک کے تحت 840 کلومیٹر طویل موٹرویز ابھی تک مکمل ہو چکی ہیں۔

سی پیک کے 10 سالوں میں پانچ سڑکوں کے منصوبے مکمل ہوئے۔ 90 فیصد تک منصوبے مکمل ہیں جبکہ 820 کلومیٹر آپٹیکل فائبر مکمل ہو چکی ہے۔

2017 میں ایم ایل ون، معائدہ ہوا تھا جس کے تحت ریل وے کا روٹ خنجراب سے گوادر تک رکھا گیا تھا۔ ایم ایل ون کی لمبائی 1733کلومیٹر ہے۔

وزارت منصوبہ بندی حکام کے مطابق کرونا کی وجہ سے بھی منصوبوں میں سست روی ہوئی، ’گذشتہ دور حکومت میں بھی کام سست روی کا شکار ہوا تھا۔ کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ، سپیشل اکنامک زون، صنعتوں کی بحالی بھی فیزٹو کا حصہ ہے۔ 46 ارب ڈالرز سے اب تک 27.3 ارب ڈالرز سی پیک کے منصوبوں پر خرچ ہو چکے ہیں جبکہ 46 ارب ڈالرز سے اوپر کے 16 ارب ڈالرز کی تخمینہ رقم فیز ٹو کے منصوبوں کی ہے۔‘

سال 2013 میں ن لیگ کے دور حکومت میں شروع ہونے والے سی پیک میں متعدد منصوبے مکمل ہوئے جن میں سکی کناری ڈیم اور داسو ڈیم جیسے منصوبے تکمیل کے آخری مرحلے میں ہیں۔

حریک انصاف کے دور حکومت میں سی پیک سست روی کا شکار ہوا جس کے بعد اس وقت کے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بیان دیا تھا کہ ’سی پیک پر کام سست نہیں ہوا۔‘

تاہم اس دوران زیر تکمیل سکی کناری ڈیم اور داسو ڈیم جیسے منصوبے مقررہ مدت میں مکمل نہیں ہوئے۔

ماہر معاشی امور اور سینیئر صحافی شہباز رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سی پیک پہ مستعدی سے کام 2014 سے لے کر 2018 تک ہوا تھا اور 2018 کے بعد سے سی پیک پہ کام سست روی کا شکار ہے اور مزید اس میں فی الحال توسیع نہیں ہو رہی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سی پیک فیزٹو حکومت پاکستان کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن چین کی طرف سے فیز ٹو پر کچھ زیادہ سگنلز نہیں ہیں۔ چین کی طرف سے فیز ٹو پر بات کرنا اس لیے میچور نہیں ہے کیونکہ چائنیز کو پہلے سے سی پیک فیز ون پر مسائل آ رہے ہیں، پاکستان نے جو ان سے معائدے کیے تھے ان پر مکمل عمل درآمد نہیں رہا، جب تک سی پیک فیز ون کے معاملات حل نہیں ہوں گے تب تک فیز ٹو کو مستعدی سے آگے بڑھانا ممکن نہیں ہو گا۔‘

معاشی امور پر نظر رکھنے والے صحافی شکیل احمد نے بتایا کہ سی پیک سی پیک فیز ون میں روڈ نیٹ ورکس اور پلوں کی تعمیر پر تو کام ہوا لیکن ریلوے سے متعلق منصوبے سست روی کا شکار ہوئے۔ ’اس کی وجوہات کئی ہیں، سب بڑی وجہ سکیورٹی تخفظات ہیں کیونکہ چینی باشندوں پر بارہا حملے ہوئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام بھی سی پیک منصوبے میں سست روی کی ایک وجہ ہے۔ چین اب کھل کر پاکستان میں اس طرح سرمایہ کاری نہیں کر رہا جس طرح 2013-2017 کے درمیان چین نے کی تھی۔‘

چینی باشندوں پر حملے اور چین کے تخفظات

رواں برس سی پیک منصوبے داسو ڈیم سائٹ پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستان میں کام کرنے والے چینی ماہرین کو سکیورٹی خدشات لاحق ہوئے۔

رواں برس مارچ کے مہینے میں بشام میں پانچ چینی باشندے اور ایک پاکستانی ڈرائیور کی خودکش حملے میں موت ہوئی جس کے بعد اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے حکومت پاکستان سے واقعے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے زیر صدارت داسو ہائیڈل پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر بشام میں دہشت گرد حملے کے بعد اعلیٰ سطح کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں آرمی چیف نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پر آرمی چیف نے کہا تھا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے کہ ہر غیر ملکی شہری خاص طور پر چینی شہری جو پاکستان کی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں پاکستان میں محفوظ رہیں، ہم پوری طاقت کے ساتھ دہشت گردی کا آخری دم تک مقابلہ کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان