انڈیا کی سپریم کورٹ نے پیر کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ریستوران کو اس کے مالکان کے نام آویزاں کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس عدالتی حکم کے بعد انڈیا کی دو شمالی ریاستوں میں پولیس کی وہ ہدایات معطل ہو گئی ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ ان سے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو ہوا مل سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کی بنچ نے پیر کو اپنے فیصلے میں کہا کہ ’ریستورانوں سے یہ توقع تو کی جا سکتی ہے کہ وہ بتائیں کہ ان کے کھانوں میں کیا کیا ہے جس میں یہ بھی شامل ہو کہ کھانوں میں سبزی ہے یا نہیں لیکن انہیں مالکان کے نام اور شناخت ظاہر کرنے پر ’مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
عدالت نے اتر پردیش اور اتراکھنڈ ریاستوں کی پولیس کے احکامات کو معطل کرتے ہوئے اس اقدام کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر اس سے جواب طلب کر لیا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق اس سے قبل پولیس نے ان دو ریاستوں میں ریستورانوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے مالکان کے نام آویزاں کریں تاکہ ہندوؤں کے مقدس مہینے کے دوران ’ابہام سے بچا جا سکے۔‘ اس مہینے میں ہزاروں ہندو پیدل یاترا کا کریں گے۔
سب سے زیادہ آبادی والی شمالی ریاست اتر پردیش کے ضلعے مظفر نگر کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندو کیلنڈر کے مطابق برسات کے مہینے میں زبانی طور پر حکم جاری کیا گیا اور یہ ہر سال جاری کیا جاتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ریاستی حکام نے کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والی ریڑھیوں کو بھی احکامات پر عمل کرنے کا کہا تھا۔
ہندو دیوتا شیو کے لاکھوں عقیدت مند دریائے گنگا سے پانی لینے کے لیے شمالی ریاستوں اتراکھنڈ، بہار اور اترپردیش میں واقع مقدس مقامات کی پیدل یاترا کرتے ہیں، جسے ’کنور یاترا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سال یہ سفر 22 جولائی سے شروع ہو رہا ہے۔
قبل ازیں پولیس نے گذشتہ ہفتے جاری کی گئی ہدایات کا جواز پیش کرنے کے لیے یاتریوں پر کھانے پینے کی پابندی جیسے کہ گوشت کا استعمال نہ کرنے کے رواج کا حوالہ دیا تھا۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ابھیشیک سنگھ نے کہا کہ ان کے دائرہ اختیار میں آنے والے تقریباً 240 کلومیٹر کے علاقے میں کھانے پینے کی تمام چھوٹی بڑی دکانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ’اپنے مالکان یا دکانیں چلانے والوں‘ کے نام درج کریں۔‘
دوسری جانب انڈین حزب اختلاف کی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کی جانب سے اس حکم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس سے ریاست میں مشکلات کا شکار اقلیتوں کے ساتھ مزید امتیازی سلوک ہوا ہے، جو ’جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی یاد دلاتا ہے۔‘
اس سے قبل انڈیا کے شمالی اور مغربی حصوں میں انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے مطالبے نے اقلیتوں کو اپنا کاروبار چلانے سے خوفزدہ کر دیا تھا۔
اپوزیشن کی سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا: ’اس طرح کے احکامات سماجی جرائم ہیں، جو ہم آہنگی کے پر امن ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔‘
مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے ایکس پر ایک پوسٹ میں پوچھا کہ ’کیا یہ ہدایت مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی طرف ایک قدم ہے۔‘
حیدرآباد سے قانون ساز اسدالدین اویسی کے بقول: ’اسے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کہا جاتا ہے اور ہٹلر کے جرمنی میں ’یہودی بائیکاٹ‘ پکارا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مظفر نگر، جہاں اب وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے، میں 2013 میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے، جس کے دوران تقریباً 65 افراد کی جان گئی اور ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے۔
بی جے پی اور نریندر مودی کی وفاقی حکومت پر متعدد مواقع پر سول سوسائٹی، حزب اختلاف کے گروپوں اور کچھ غیر ملکی حکومتوں کی جانب سے مذہبی امتیاز کو ہوا دینے کے مقصد سے فیصلے کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
تاہم وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کی مخالفت اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔
ان بیانات کے باوجود اتر پردیش میں امتیازی سلوک جاری ہے۔
قبل ازیں رواں ماہ مظفر نگر میں بی جے پی کے رکن اسمبلی نے کہا تھا کہ یاترا کے دوران مسلمانوں کو اپنی دکانوں کا نام ہندو دیوتاؤں کے نام پر نہیں رکھنا چاہیے۔
اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’جب یاتریوں کو پتہ چلتا ہے (کہ وہ جن دکانوں پر کھاتے ہیں انہیں مسلمان چلاتے ہیں) تو اس سے تنازع پیدا ہوتا ہے۔‘
اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ’کنور یاترا‘ میں شریک لوگوں کی تعظیم کے طور پر راستوں پر کھلے عام گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔