جون کی گرمی کا ایک اثر یہ ہوا ہے کہ جولائی میں لوگوں کے بجلی کے بل بہت زیادہ آ گئے ہیں۔ گویا بجلی کے بلوں نے ہر گھر پر بجلی گرا دی ہے۔
حکومت کے پاس بجلی کے بل زیادہ آنے کی ہزار دلیلیں ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اپنی توانائی کا بڑا حصہ فوسل فیول جس میں تیل، گیس اور کوئلہ شامل ہیں، سے پورا کرتے ہیں اور صرف 36 فیصد بجلی پانی یا قابل تجدید ذرائع سے آتا ہے۔ اس لیے جب ملکی ضروریات کی 64 فیصد بجلی درآمدی ذرائع سے پیدا ہو گی تو پھر یہ مہنگی ہی ہو گی۔
پاکستان کو ہر سال 15سے 20 ارب ڈالر کا خام تیل اور ایل این جی درآمد کرنی پڑتی ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں شدید عدم توازن کی وجہ سے روپے کی قیمت بھی گر رہی ہے جس سے اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان میں بجلی کے بل میں عائد بھاری ٹیکسوں کو نکال کر بجلی کی فی یونٹ قیمت 15 سینٹ ہے جبکہ خطے میں یہ شرح آٹھ سے نو سینٹ فی یونٹ ہے، گویا پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بجلی 45 فیصد مہنگی ہے۔
پاکستان اور انڈیا ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے، انڈیا رقبے اور آبادی دونوں حوالوں سے پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے مگر پھر بھی یہ حیران کن بات ہے کہ انڈیا کے عام صارفین کو پاکستان کے عام صارفین کے مقابلے پر بجلی آدھی قیمت پر دستیاب ہے۔
ایک انڈین روپے کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 3.33 روپے بنتی ہے۔ اس طرح انڈیا اور پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں فرق زیادہ نہ بھی ہو تب بھی انڈیا میں ٹیکسوں کی شرح بہت کم ہے۔ پاکستان میں جی ایس ٹی کے ساتھ، ایڈوانس انکم ٹیکس، فیول ایڈجسٹمنٹ، کیپسٹی پیمنٹ وغیرہ کی مد میں دیے جانے والے ٹیکس بجلی کی قیمت جتنے ہو جاتے ہیں جبکہ انڈیا میں ٹیکسوں کی شرح کم سے کم پانچ فیصد اور زیادہ سے زیادہ 18 فیصد تک ہے۔
انڈیا کی عام آدمی پارٹی جس کی دہلی پر 2015 سے حکومت ہے اس نے دہلی میں 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے زیرو بل کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ جبکہ پنجاب میں حکومت سازی کے بعد عام آدمی پارٹی نے پنجاب کے ہر گھرانے کے لیے 300 یونٹ مفت بجلی کا وعدہ بھی پورا کر دیا ہے۔
اس سال فروری میں پنجاب کے 90 فیصد گھرانوں کے بل زیرو آئے تھے۔ جس کے لیے 11,500 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی۔
پاکستان میں بجلی کن ذرائع سے بنتی ہے اور کتنے کی پڑتی ہے؟
اکنامک سروے آف پاکستان 2023-24 کے مطابق پاکستان میں بجلی بنانے کی کل صلاحیت 42,131 میگا واٹ ہے جس میں سے پانی سے بننے والی بجلی کی شرح 25.35، تیل، کوئلے اور گیس سے، 59.45، ایٹمی 8.41 اور متبادل ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی شرح 6.79 فیصد ہے۔
ایل این جی سے پیدا ہونےو الی بجلی 33.50 روپے فی یونٹ، فرنس آئل سے 63.57 روپے، درآمدی کوئلے سے 77.66روپے، ایٹمی سے 20.41 روپے اور پانی سے 10.39روپے فی یونٹ پڑتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بجلی استعمال کرنے والے صارفین چار قسم کے ہیں: گھریلو جو کل پیدا ہونے والی بجلی کا 49.21 فیصد استعمال کر رہے ہیں۔ صنعتی جو 26.29، زرعی 10.07 اور کمرشل 7.83 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں 100 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے فی یونٹ 7.74 روپے، 100 سے 200 یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے 10 روپے فی یونٹ، 300 یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے 30 روپے فی یونٹ، 400 یونٹ والوں کے لیے 38 روپے، جبکہ 500 یونٹ یا اس سے اوپر والوں کے لیے 42 روپے فی یونٹ قیمت مقرر ہے۔
کمرشل صارفین کے لیے 41 روپے فی یونٹ، صنعتی کے لیے 30اور زرعی کے لیے 22.85روپے فی یونٹ قیمت مقرر ہے۔ بجلی کی قیمتوں کا تعین نیپرا کے ذمے ہے جو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی درخواست پر آئے روز اضافہ بھی کرتا رہتا ہے۔ پاکستان نے پاور سیکٹر کو سبسڈی دینے کے لیے اس سال کے وفاقی بجٹ میں 3.6 ارب ڈالر کے مساوی رقم مختص کی ہے۔
انڈیا کی صورت حال کیا ہے؟
انڈیا کی سینٹرل الیکٹریسٹی اتھارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق انڈیا کی بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت چار لاکھ 28 ہزار میگا واٹ ہے جس میں سے کوئلے سے سب سے زیادہ یعنی 49.3 فیصد، پانی سے 11.2 فیصد، ہوا اور شمسی توانائی سے30.2 فیصد اور گیس سے چھ فیصد بجلی پیدا ہوتی ہے۔
انڈیا میں پانی سے پیدا ہونے والی بجلی پر فی یونٹ ڈھائی سے چار روپے فی یونٹ لاگت آتی ہے جبکہ شمسی توانائی پر 4.50 روپے، ہوا سے چار روپے تیل سے 12 روپے، گیس سے چھ سے سات روپے اور کوئلے سے دو سے تین روپے فی یونٹ لاگت آتی ہے۔
اس طرح انڈیا میں بجلی کی اوسطاً فی یونٹ پیداواری لاگت 6.29 روپے آتی ہے۔
انڈیا میں 100یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 4.16 مقرر کی گئی ہے۔ 100 سے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے ٹیرف 7.03روپے، 301 سے 500 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کے لیے 10.09 روپے، 500 سے اوپر استعمال کرنے والوں کے لیے 11.79 روپے فی یونٹ ہے۔
انڈیا کے 37 صوبے ہیں مگر اس کی 70 فیصد صنعتیں صرف آٹھ صوبوں میں ہیں جہاں صنعتوں کے لیے 4.25 سے 6.35 روپے فی یونٹ ریٹس مقرر ہیں۔ پاکستان میں 26.29 فیصد بجلی صنعتیں استعمال کرتی ہیں جبکہ انڈیا میں یہ شرح 41.16 فیصد ہے۔
انڈیا نے بجلی کے بلوں کو کم رکھنے کے لیے گذشتہ مالی سال میں 39.3 ارب ڈالر کی سبسڈی دی ہے۔ انڈیا کو اس سال جون میں گذشتہ ایک دہائی کے بجلی کے سب سے بڑے شارٹ فال یعنی 14000 میگا واٹ کمی کا سامنا ہے۔
انڈیا 2030 تک اپنے انرجی سیکٹر پر 600 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ اس مقصد کے لیے انڈیا نے متبادل توانائی کے ذرائع سے ساڑھے چار لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا، بجلی کی پیداوار میں کون کہاں کھڑا ہے؟
پاکستان نے اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 1998 میں بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں کو شراکت دی۔ جس کے بعد بجلی بنانے والے کارخانے دھڑا دھڑ لگائے گئے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری پیداواری صلاحیت 43000 میگا واٹ تک جا پہنچی ہے جبکہ گرمیوں میں ہماری زیادہ سے زیادہ کھپت 26,000 میگاواٹ رہتی ہے۔
ہمارا بجلی کا ترسیلی نظام اس سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی سکت بھی نہیں رکھتا جس کی وجہ سے 17,000 میگا واٹ غیر استعمال شدہ بجلی کا بوجھ جو پاور کمپنیاں پیدا بھی نہیں کر رہیں، وہ بھی صارفین پر پڑتا ہے۔ جبکہ وہ گردشی قرضہ جو حکومت نے ان کمپنیوں کا ادا کرنا ہے وہ تقریباً سات ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
پاکستان میں سالانہ بلوں کی عدم ادائیگی اور بجلی چوری کی وجہ سے 589 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2020 کے درمیان صرف 13 سالوں میں پاور سیکٹر نے ملک کی معیشت کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا تخمینہ 84 ارب ڈالر ہے۔
انڈیا میں ایسا نہیں ہے۔ انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ وہاں وفاقی حکومت، صوبے اور نجی پاور کمپنیاں بجلی پیدا کر رہی ہیں۔ انڈیا میں بجلی کے امور پاور منسٹری کے ذمے ہیں جو بجلی کی پیداوار، ترسیل اور قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع جن سے بجلی کی پیداوار سستی بھی ہے اور ماحول دوست بھی، اس کی پاکستان میں پیداواری شرح سات فیصد ہے جبکہ انڈیا میں یہ شرح 2022 تک 20.5 فیصد تھی جسے انڈیا نے 2040 تک 70 فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی بجلی چوری ایک بڑا مسئلہ ہے اور انڈیا میں سالانہ 16ارب ڈالر کی بجلی چوری ہوتی ہے جسے روکنے کے لیے انڈیا چار ارب ڈالر کی لاگت سے ایک نیا منصوبہ شروع کر رہا ہے۔