وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اظہر مشوانی کا یہ الزام ’سفید جھوٹ‘ ہے کہ پاکستان میں مقیم والدین سے متعلق مشوانی کو دھمکیاں دی گئیں۔
عطا تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کو بتایا ہے کہ یہ الزامات سفید جھوٹ ہیں، ان کا کوئی ’ثبوت نہیں اور محض ذہنی اختراغ‘ ہیں۔
موجودہ حکومت کے ناقد اظہر مشوانی نے الزام لگایا ہے کہ ان سے یہ کہا گیا کہ اگر انہوں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک پروگرام میں شرکت کی تو ان کے والدین کو اغوا کر لیا جائے گا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ایک سینیئر معاون اظہر مشوانی منگل کو ہاؤس آف لارڈز میں پاکستان کی اپوزیشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن پر بحث کرنے والی سماعت میں بات کرنے والے تھے۔
لیکن اس سماعت سے دو دن پہلے اظہر مشوانی کو ایک فون کال موصول ہوئی جس میں انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر وہ اس مباحثے میں شامل ہوئے تو ان کی والدہ اور والد کو اغوا کر لیا جائے گا۔ عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کو دھمکانے اور دبانے کی مہم کا حصہ ہے۔
اظہر مشوانی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’مجھے کال موصول ہوئی اور کہا گیا کہ اگر میں اس مباحثے میں گیا تو مجھے اپنے بھائیوں کو بھول جانا چاہیے اور میرے والدین کو بھی اغوا کر لیا جائے گا۔‘
ان کے بقول: ’یہ دم گھٹنے جیسا ہے کہ برطانیہ میں بھی مجھے دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور میں اپنے بنیادی انسانی حقوق کا استعمال نہیں کر سکتا۔ مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ مجھ پر حملہ ہو سکتا ہے۔‘
عمران خان اگست 2023 سے زیر حراست ہیں اور حال ہی میں حکومت نے ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
عمران خان کے سابق میڈیا کوارڈینیٹر اظہر مشوانی مئی 2024 میں برطانیہ میں آباد ہونے سے قبل بھی روپوش تھے۔ مباحثے کی صدارت کرنے والے لارڈ ڈینیل ہنن نے دی انڈپنڈنٹ کو بتایا: ’میں یہ سن کر پریشان ہو گیا ہوں کہ ہمارے مباحثے میں شامل ہونے پر لوگوں کو ان کے پاکستان میں موجود خاندان کے افراد کے خلاف دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’پاکستان ایک دوست اور اتحادی ملک ہے اور اسے قانون کی حکمرانی بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر جمہوریت دوست کو کھڑا ہونا چاہیے اور اس کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔‘
عمران خان کو جب گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے دیکھے گئے جن میں فوجی تنصیبات پر حملے بھی شامل ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کی منصوبہ بندی تحریک انصاف کی قیادت نے کی تھی اور اس بنا پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں بھی کی گئیں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف تمام مقدمات سیاسی عناد کی بنیاد پر بنائے گئے جو کہ ان کے بقول ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کی جانب سے اس سال ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو اقتدار سے دور رکھنے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہیں۔
گذشتہ ہفتے پاکستان کے وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ ان کی حکومت عمران خان کی سیاسی جماعت پر اس ’ثابت شدہ‘ الزام کی بنیاد پر پابندی لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے کہ اس جماعت نے غیر قانونی ذرائع سے غیر ملکی فنڈز حاصل کیے اور ساتھ ہی گذشتہ سال ان کے حامیوں کی طرف سے ہنگامہ آرائی کی گئی تھی۔
صوابدیدی حراست سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے یکم جولائی کو عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ’غیر قانونی طور پر‘ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ حراست میں لیا گیا ہے۔
لیکن وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت ایسے تمام الزامات کی تردید کرتی ہے کہ پی ٹی آئی کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال مئی میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے پیش نظر پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف مجرمانہ اقدامات پر مقدمات قائم کیے گئے۔