امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک مرتبہ پھر جمہوریت، انسانی حقوق کے احترام اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات پر امریکہ کوئی موقف نہیں رکھتا۔
بدھ کو معمول کی پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے سوال کیا گیا کہ کانگریس مین بریڈ شرمین نے ایک ٹویٹ میں انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر سے کہیں کہ وہ (سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین) عمران خان سے ملاقات کریں۔ 101 ملین ڈیموکریسی فنڈز (کی بات ہو رہی ہے) لیکن ملک کا سب سے بڑا لیڈر ایک سال سے جیل میں بند ہے اور امریکی سفیر کانگریس کے کہنے کے باوجود ان سے ملاقات نہیں کر رہے۔ آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
جس پر میتھیو ملر نے جواب دیا: ’میں اس بارے میں نہیں جانتا۔ آپ نے کہا کہ یہ بریڈ شرمین کی ٹویٹ تھی؟ میں نے یہ ٹویٹ نہیں دیکھی، اس لیے میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میں کہوں گا، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کیونکہ آپ اور میں نے متعدد مواقع پر اس مسئلے پر بات کی ہے کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات ایسے ہیں جن پر ہم کوئی موقف نہیں رکھتے۔ ہم جمہوریت کے احترام، انسانی حقوق کے احترام اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے پر زور دیتے ہیں۔‘
سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان عمران خان اور ان کے حامی ڈونلڈ لو پر 2022 میں اپنی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں ایک خط (سائفر) لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک غیر ملکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ہے جس میں ان کی حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی ظاہر ہوتی ہے۔
سائفر ایک سفارتی سرکاری دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے اور عمران خان کے خلاف اسی بنیاد پر کیس بھی بنایا گیا تھا کہ انہوں نے 2022 میں امریکہ میں اس وقت تعینات پاکستان کے سابق سفارت کار اسد مجید کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کو افشا کیا۔
واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی خط و کتابت یعنی سائفر سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ اپریل 2022 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔
امریکی حکام اس کی بارہا تردید کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکہ نے کسی طرح کی سازش کی ہو۔
’پاکستان بجٹ‘
اس سے قبل ترجمان امریکی محکمہ خارجہ سے سوال کیا گیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے جمہوریت کو مضبوط کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے لیے 100 ملین ڈالر سے زیادہ کی سفارش کی ہے۔ کیا آپ اس حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم کر سکتے ہیں؟
جس پر میتھیو ملر نے جواب دیا: ’ہم نے صرف کانگریس سے پاکستان کو جمہوریت کو مضبوط کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے 100 ملین - 101 ملین ڈالر بجٹ کی درخواست کی تھی۔ ہم اسے جمہوریت اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے، اقتصادی اصلاحات اور قرضوں کے انتظام کی حمایت کے لیے پروگراموں کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم نے (ماضی میں) اسی طرح کی بجٹ کی درخواستیں کی ہیں۔۔۔ کانگریس سے اسی طرح کی بجٹ اتھارٹی حاصل کی ہے اور بنائی ہے اور سرمایہ کاری کی ہے، ان فنڈز کا استعمال کیا ہے جو کانگریس نے پاکستان کے ساتھ ہماری شراکت میں سرمایہ کاری کے لیے مختص کیے تھے۔ ہم اسی طرح کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے فنڈز کا استعمال کریں گے، اگر وہ کانگریس کے ذریعے مختص کیے جائیں، جیسا کہ ہمارے پاس رواں مالی سال اور پچھلے پروگراموں میں ہے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے منگل کو امریکی ایوان نمائندگان کی سب کمیٹی کو بتایا تھا کہ صدر جو بائیڈن نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 101 ملین ڈالر کے ’پاکستان بجٹ‘ کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ’اس رقم کو جمہوریت اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے، دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی سے لڑنے، پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے، چین پر مزید انحصار کو روکنے کے لیے معاشی اصلاحات اور قرضوں کے انتظام میں مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘
بقول ڈونلڈ لو: ’ہم پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اپنی اہم جنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔‘