عدت کیس میں رہائی کے بعد عمران خان، بشری بی بی نئے مقدمے میں گرفتار

عمران خان اور بشری بی کی عدت کیس میں رہائی کے حکم کے کچھ دیر بعد نیب نے انہیں توشہ خانہ کے نئے مقدمے میں گرفتار کر لیا۔

اسلام آباد کی ایک ضلعی عدالت کی جانب سے ہفتے کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلیں منظور کرتے ہوئے سزائیں کالعدم اور ملزمان کو بری قرار دیے جانے کے کچھ دیر بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں نئے مقدمات میں گرفتار کر لیا۔

نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر محسن ہارون کے مطابق عمران خان اور بشری بی بی کو توشہ خانہ کے نئے کیسز میں گرفتار کیا گیا۔ عمران خان کی پہلے ہی توشہ خانہ سے متعلق دو مقدمات میں سزائیں معطل ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ انہیں سائفر کیس میں بری کر چکی ہے۔

آج عدت کیس میں رہائی کے عدالتی حکم کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ آج ہی عمران خان کی رہائی ہونا چاہیے۔ تاہم نئے توشہ خانہ کیسز میں گرفتاری کے بعد ان کے فوراً باہر آنے کے امکان نہیں۔

تحریک انصاف نے ایک مختصر بیان میں بتایا کہ ’عمران خان کو تین نئے مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے نو مئی کے مقدمے میں عمران کی گرفتاری کی درخواست منظور کر لی۔‘

تحریک انصاف نے نئے مقدمات کو عمران خان کی رہائی میں تاخیر کا ’ایک اور ہتھکنڈا‘ قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ عمران خان پر نو مئی کے واقعات کے تمام مقدمات پولیس حکام کی گواہی پر بنائے گئے۔

بدعنوانی کے ایک مقدمے میں عمران خان کی اہلیہ سے پوچھ گچھ کے لیے احتساب بیورو کے حکام کی آج اڈیالہ جیل آمد کے بعد پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا: ’ان (عمران خان اور اہلیہ) کی ساکھ مکمل طور پر تباہ کرنے اور غیر قانونی سرگرمیاں انجام دینے پر نیب کو شرم آنی چاہیے۔‘

عدت کیس میں فیصلہ آنے کے بعد بیرسٹر گوہر علی خان نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمران خان کے خلاف آخری مقدمہ تھا اس لیے آج ہی ان کی رہائی ہونا چاہیے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں پہلے ہی ضمانت پر ہیں، جب کہ عدت کیس آخری مقدمہ تھا جس میں انھیں بری کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی کی بھی دیگر مقدمات میں ضمانت ہو چکی ہے۔

بیرسٹر گوہر علی نے مزید کہا ان کی آج اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات ہوئی جنھوں نے سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی پہلے ہی ضمانتیں ہو چکی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدت کیس میں عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے میاں بیوی کی رہائی کا حکم بھی صادر کیا ہے۔

’اس وقت عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف کوئی ایسا مقدمہ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں زیر حراست رکھا جا سکے۔‘

انہوں نے مطالبہ کیا کہ دونوں میاں بیوی کو ہر صورت آج ہی رہائی ملنا چاہیے۔

عمران خان رہا ہو سکیں گے؟

عدت کیس میں بریت کے باوجود عمران خان کی رہائی ممکن نظر نہیں آ رہی کیوں کہ لاہور میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے نو جولائی کو نو مئی کے واقعات میں سابق وزیر اعظم کی ضمانت مسترد کی ہوئی ہے۔

نو مئی کے واقعات کے سلسلے میں پنجاب پولیس نے عمران خان کا نام کئی ایف آئی آرز میں شامل کیا تھا، جن میں جناح ہاؤس، لاہور کور کمانڈر کی رہائش گاہ، عسکری ٹاور اور شادمان تھانے پر حملے شامل ہیں۔ 

نو جولائی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ان مقدمات سے متعلق قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواستوں مسترد کر دی تھیں۔  

تاہم بشریٰ بی بی کی فوراً رہائی ممکن ہے کیوں کہ ان کے خلاف اور کوئی ایسا مقدمہ موجود نہیں، جس میں سابق خاتون اول کی گرفتاری مطلوب ہو۔

بشریٰ بی بی کے خلاف دو مقدمات تھے، جس میں سے عدت کے دوران نکاح کے مقدمے وہ بری ہو گئی ہیں جبکہ 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے میں انہیں پہلے ہی ضمانت ملی ہوئی ہے۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ مقدمے میں سنائی گئی سزائیں معطل کر دی تھیں۔

آج عدالت میں کیا ہوا؟

آج ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے اپیلوں پر سماعت کا آغاز کیا تو بشری بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کے وکیل چوہدری آصف زاہد نے دلائل جاری رکھے۔

وکیل نے کہا بشری بی بی مشکل وقت میں اپنے خاوند کے ساتھ کھڑی رہی ہیں جبکہ ان کے خاوند (عمران خان) کہہ رہے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں۔

انہوں نے دلائل کے دوران شعر پڑھتے ہوئے کہا:

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی

یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

وکیل چوہدری آصف نے زبانی طلاق دینے کے حوالے سے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’دستاویزات زبانی بات پر فوقیت رکھتے ہیں، بشری بی بی نے کس جگہ کہا کہ انہوں نے عدت پوری کر لی تھی؟

’بشری بی بی نے کسی بھی جگہ مفتی سعید کو نہیں کہا کہ میری عدت پوری ہو گئی ہے۔ دوسری جانب سے کہا گیا کہ خاتون کا بیان حتمی ہوگا، بشری بی بی نے مفتی سعید کو کہا کہ میری عدت پوری ہو گئی ہے۔‘

جج افضل مجوکا نے استفسار کیا کہ ’ان کے بیان کو آپ ان کے خلاف کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ شرعی تقاضے پورے کرنے کا ذکر تو کیا گیا ہے۔ اس بات پر میں بھی آپ سے اختلاف کروں گا کہ آپ جیسے سینیئر وکیل سے ایسی بات کی امید نہیں تھی۔‘

وکیل نے جواب دیا ’اختلاف کرنا سب کا حق ہے اور آپ بھی اختلاف کر سکتے ہیں۔‘

کیس کی سماعت کے دوران غیر معمولی صورت حال اس وقت دیکھنے میں آئی جب خاور مانیکا کے وکیل نے یوٹیوبرز کی طرف اشارتاً بات کی۔

وکیل نے کہا یہاں پورے ریکارڈ میں بشری بی بی نے کہیں نہیں کہا عدت کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کا نکاح ہوا۔ سوشل میڈیا یوٹیوبرز نے ایسی فضا قائم کی کہ عورت کی بات حتمی ہے۔

جج نے صحافیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مکالمہ کیا ’یہ بے چارے تو اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔‘

92 نیوز نامی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی ثاقب بشیر نے جواب دیا ’سر ہم بے چارے نہیں ہیں، ہم پیشہ ور صحافی ہیں۔ ذمہ داری اور غیر جانب دارانہ طریقہ سے پوری کر رہے ہیں۔ ایسی بات سے تاثر جاتا ہے ہم کوئی سوسائٹی کے تھرڈ کلاس لوگ ہیں۔‘

جج افضل مجوکا نے جواب دیا ’نہیں، میرا مطلب تھا کہ ہم سب پروفیشنل ہیں کہیں نا کہیں جواب دہ ہیں۔‘

سماعت میں وکیل نے سوال کیا ’کہاں لکھا ہے کہ بشری بی بی نے کہا کہ میں نے عدت میں شادی نہیں کی؟ متعدد مرتبہ کہا گیا کہ بشری بی بی کا بیان حتمی ہوگا۔‘

وکیل عثمان ریاض نے کہا دفعہ 342 کے بیان میں سوال نمبر دو میں بشری بی بی کا بیان موجود ہے۔

خاور مانیکا کے وکیل نے کہا اعتراض اٹھایا گیا کہ طلاق نامہ کی فوٹو کاپی عدالت پیش کی گئی، قانون شہادت میں لکھا گیا کہ کاپی کی بھی کاپی قابل قبول ہوگی۔ ٹمپرنگ کا الزام لگایا گیا۔

وکیل نے کہا اسے چیک کروایا جا سکتا تھا ’میں نے اسے غور سے دیکھا مجھے نظر نہیں آیا کہ کوئی ٹمپرنگ کی گئی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ عورت جب اپنی عدت مکمل کر لے تو وہ شادی کرسکتی ہے، جب تک عدت مکمل نہ ہو دوسری شادی کا فیصلہ بھی نہ کیا جائے۔‘

عدت کے دورانیے کا حوالہ

بشری بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کے وکیل نے عدت کے دورانیے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ جب تک عدت کا دورانیہ پورا نہیں ہوتا وہ طلاق دینے والے شوہر کی بیوی ہی تصور ہوگی۔ سال 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا جس میں لکھا کہ عدت کا دورانیہ 90 روز تصور کیا جائے گا۔

وکیل نے کہا ’خاتون عدت کے دوران دوسری شادی کرے گی تو وہ ایک وقت میں دو نکاح میں ہوگی، ان کی طرف سے 14 نومبر کی طلاق کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ جب پہلے نکاح ہو چکا تھا تو دوسرا نکاح کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کا مطلب ہے پہلا نکاح فراڈ تھا۔ قانون واضح ہے کہ اگر دو مرتبہ نکاح ہوا تو پہلا خلاف قانون تھا۔‘

اس کے ساتھ وکیل نے سزا کو برقرار رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا چیئرمین یونین کونسل کو نوٹس جاری نہ کرنا کوئی اور جرم ہوسکتا ہے تاہم فراڈ نہیں ہو سکتا۔

طلاق کا نوٹس خاور مانیکا نے نہیں دیا تو 90 روز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مسلم فیملی لا کے سیکشن سات کو پڑھا ہے اس میں لکھا ہے کہ نوٹس لازمی شرط نہیں ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا ’ان کی بات مانی بھی جائے تو بھی قانونی سقم کہا جا سکتا ہے اسے فراڈ شادی نہیں کہا جا سکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایک طلاق ہوئی تو کیا مطلب ہوا خاور مانیکا اور بشری بی بی ابھی تک نکاح میں ہیں؟ کیونکہ نوٹس تو ابھی تک نہیں ہوا۔ سیکشن سات کے مطابق آج بھی گاؤں میں طلاق نوٹس کے ذریعے نہیں دی جاتی۔‘

وکیل نے کہا 14 نومبر 2017 کے طلاق نامے کی فوٹو کاپی ثبوت کے طور پر پیش کی گئی، اس روز کے ڈاکومنٹس کو ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عدت کب سے شروع ہوئی اس حوالے سے کوئی دستاویز موجود نہیں ہے؟ خاتون اپریل کا کہتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ 14 نومبر 2017 کو ہوئی ہے۔

’کیس اتنا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ نکاح اس تاریخ کو نہ ہوتا فلاں تاریخ کو ہوتا۔‘

عدت میں نکاح کیس: اب تک کیا ہوا؟

گذشتہ برس 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت اللہ کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف عدت کے نکاح و ناجائز تعلقات کا کیس دائر کیا تھا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ’دوران عدت نکاح کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے۔‘

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔

بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا شکایت کنندہ ہیں جبکہ عون چوہدری اور مفتی سعید اس کیس میں گواہ ہیں۔

گذشتہ برس 11 دسمبر کو عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔

اڈیالہ جیل میں سماعت کے بعد سینیئر سول جج قدرت اللہ نے رواں برس 16 جنوری کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف ناجائز تعلقات کے الزامات کا کیس ختم کرتے ہوئے صرف عدت میں نکاح کی حد تک فرد جرم عائد کی تھی۔

بعد ازاں ملزمان کی جانب سے معاملہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف عدت کے دوران نکاح کیس میں گواہان کے بیانات قلمبند کرنے سے روکتے ہوئے خاور مانیکا کو 25 جنوری کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔

لیکن 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کی دورانِ عدت نکاح کیس خارج کرنے کی درخواستیں نمٹا دیں اور قرار دیا کہ ’فردِ جرم عائد ہو چکی ہے، ہائی کورٹ مداخلت نہیں کر سکتی۔‘

بعدازاں رواں برس تین فروری کو سول جج قدرت اللہ نے اڈیالہ جیل میں عدت میں نکاح کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سات، سات سال قید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا کا حکم سنایا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا، جس میں عدالت کی جانب سے سزا سنائی گئی۔

سماعت کے دوران عمران خان اور بشریٰ بی بی کو کمرہ عدالت میں 13 صفحات پر مشتمل سوال نامہ دیا گیا تھا۔ بشریٰ بی بی نے اپنے بیان میں 14 نومبر 2017 کے طلاق نامے کو ’من گھڑت‘ قرار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ (سابق شوہر) خاور مانیکا نے انہیں اپریل 2017 میں زبانی طلاق دی اور اپریل سے اگست 2017 تک انہوں نے اپنی عدت کا دورانیہ گزارا۔

بقول بشریٰ بی بی: ’میں اگست 2017 میں لاہور میں اپنی والدہ کے گھر منتقل ہوئی اور یکم جنوری 2018 کو عمران خان سے ایک ہی نکاح ہوا۔‘

بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ مریم ریاض وٹو نے بھی رواں برس فروری میں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی بہن پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بشریٰ بی بی اسلامی قوانین کے تحت عدت پوری کر کے اپنے گھر گئیں اور پھر ان کا نکاح ہوا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ بشریٰ بی بی کی خاور مانیکا سے طلاق کی وجہ سابق شوہر کا توہین آمیز رویہ تھا۔

بقول مریم وٹو: ’جب بشریٰ بی بی کی طلاق ہو گئی تو خان صاحب نے انہیں باقاعدہ شادی کا پیغام دیا اور میری والدہ اور بھائی کو فون کیا۔ بشریٰ بی بی نے فوراً رشتہ منظور نہیں کیا بلکہ کافی وقت کے بعد ہاں کی اور اس کے بعد ان کا نکاح ہوا۔‘

دوسری جانب بشریٰ بی بی کے سابقہ شوہر خاور مانیکا نے مریم وٹو کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ ان کا ’کبھی کبھار جھگڑا ہوجاتا تھا لیکن وہ ان (بشریٰ بی بی) کی حرکات سے چڑ گئے تھے۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ 28 سال بشریٰ بی بی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک رہے اور کوئی مسائل نہیں تھے، لیکن بقول ان کے عمران خان کے ان کی زندگی میں آنے کے بعد سے معاملات خراب ہوئے۔

خاور مانیکا مختلف ٹی وی انٹرویوز اور عدت کیس کی عدالتی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان پر یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ ان کی مرضی کے خلاف ان کے گھر آتے تھے جبکہ انہوں نے عمران خان کو اپنے گھر سے باہر نکالنے کا دعویٰ بھی کیا تھا اور بقول ان کے اس صورت حال سے تنگ آ کر انہوں نے 14 نومبر 2017 کو اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان