ٹیلی میڈیسن سے ’20 لاکھ بچوں کا مفت علاج‘ کرنے والی تنظیم

سماجی تنظیم چائلڈ لائف فاؤنڈیشن سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے 313 شہروں کے ہسپتالوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ہر سال 20 لاکھ بچوں کا مفت علاج کر رہی ہے۔ 

پاکستان کے کئی شہروں میں ہزاروں بچوں کا مفت علاج کرنے والی سماجی تنظیم چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر احسن ربانی کا کہنا ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کی نسبت پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کے شرح اموات دوگنا ہے۔

ڈاکٹر احسن ربانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سماجی تنظیم چائلڈ لائف فاؤنڈیشن سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے 313 شہروں کے ہسپتالوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ہر سال 20 لاکھ بچوں کا مفت علاج کر رہی ہے۔ 

 فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر احسن ربانی نے بتایا کہ ’اس وقت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کی نسبت پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کے شرح اموات دوگنا زیادہ ہے، جسے کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

’اس مقصد کے لیے دیہی اور دور دراز علاقوں کے بچوں کو معیاری اور مفت علاج دینا ہو گا، جو ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘

ڈاکٹر احسن ربانی کے مطابق: ’پاکستان میں ہر روز 1000 نوزائیدہ بچے صحت کی بہتر سہولتیں نہ ہونے کے باعث انتقال کر جاتے ہیں اور یہ تعداد پاکستان میں روڈ حادثات، دل کے امراض اور دیگر تمام اموات سے بہت زیادہ ہے۔

’سندھ میں گذشتہ 14 سالوں سے چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کام کر رہی ہے، جس کے باعث صوبے میں بچوں کی شرح اموات دیگر صوبوں کی نسبت آدھی ہے۔

’چائلڈ لائف کے جانب سے سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے 313 شہروں کی ہسپتالوں ٹیلی میڈیسن کی خدمات دے رہی ہے، جب کہ جلد ہی خیبر پختوانخوا میں بھی کام شروع کر دیا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا، جب وہاں لائے جانے والے بچوں میں شرح اموات 80 فیصد تھی، جو آج ایک سے دو فیصد ہے۔‘

ڈاکٹر احسن ربانی کے مطابق اس وقت تک چائلڈ لائف فاؤنڈیشن 80 لاکھ بچوں کا کامیاب علاج کر چکی ہے۔

بقول ڈاکٹر احسن ربانی: ’ہمارا مقصد ہے کہ پاکستان میں کوئی بچہ بیمار ہو تو وہ ہمارے مرکز سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہو۔ ہم چاہتے ہیں ہم ہر جگہ موجود ہوں اور بچوں کا مفت علاج کریں۔

’بڑے شہر کے ہسپتال لے جانے کے لیے سفری اخراجات، علاج میں تاخیر کے باعث بچے کی زندگی کو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

’ان نواحی علاقوں کے ہسپتالوں سے بڑے شہر کے ہسپتال ریفر کرنے کے بجائے وہیں معیاری علاج کی خاطر ہم نے ٹیلی میڈیسن کا آغاز کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیلی میڈیسن میں علاج کا طریقہ

ڈاکٹر احسن ربانی نے کہا سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے 313 ضلعی اور تحصیل ہسپتالوں کے عملے کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ وہاں کیمرے بھی لگائے گئے ہیں۔

ان ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹرز اور دیگر عملہ آنے والے بیمار بچوں کی بیماری، عمر، وزن، بخار اور بیماری کے متعلق معلومات لیتے ہیں، جو ایک سافٹ ویئر میں اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں۔

’ہمارے مراکز میں بیٹھے پیڈیاٹریشن اور بچوں کی مختلف بیماریوں کے ماہر سینیئر ڈاکٹرز اپنی کمپیوٹر سکرینز پر ان ہسپتالوں میں آنے والوں بچوں کو دیکھنے کے علاوہ سافٹ ویئر میں ان بچوں کی معلومات بھی دیکھتے اور ٹیسٹ کروانے کے بعد دوائی تجویز کرتے ہیں۔‘ 

ان مراکز میں بیٹھے چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر کیمرے کی مدد سے بچوں کو لائیو دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر احسن ربانی کے مطابق:’ چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹرز اور دیگر عملے کے لوگ نوجوان ہیں۔ چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کرنے والے 1800 افراد کی اوسط عمر 29 سال ہے۔

’ٹیلی میڈیسن کے باعث نہ صرف بچوں کا وقت پر بہتر علاج ہوتا بلکہ وہاں موجود ڈاکٹر کی تربیت بھی ہوتی ہے اور وہ ڈاکٹر ان نواحی علاقوں کی ہسپتالوں میں بہتر علاج کرنے لگے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت