حماس کے رہنما اسرائیلی حراست میں چل بسے

فلسطینی حکام اور حماس نے جمعے کو کہا ہے کہ مغربی کنارے میں گروپ کے ایک رہنما مصطفیٰ محمد ابو آرا اسرائیل  کی حراست میں جان سے چلے گئے۔

نو جولائی 2024 کی اس تصویر میں مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں خواتین اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے لیے مظاہرہ کر رہی ہیں (اے ایف پی)

فلسطینی حکام اور حماس نے جمعے کو کہا ہے کہ مغربی کنارے میں گروپ کے ایک رہنما مصطفیٰ محمد ابو آرا اسرائیل  کی حراست میں جان سے چلے گئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے قیدیوں کے امور کے ادارے اور فلسطینی قیدیوں کے کلب کے نگران ادارے کے مشترکہ بیان میں کہا گیا: ’63 سالہ مصطفیٰ محمد ابو آرا جنوبی اسرائیل کی ایک جیل سے ہسپتال منتقل ہونے کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔‘

حماس نے اپنے بیان میں کہا: ’ہم رہنما شیخ مصطفیٰ محمد ابو آرا کے انتقال پر سوگوار ہیں اور قابض (اسرائیل) کو جان بوجھ کر طبی غفلت کے ذریعے ان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔‘

فلسطینی ادارے اور واچ ڈاگ نے بتایا کہ ابو آرا کو اکتوبر 2023 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ شدید صحت کے مسائل کا شکار تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حراست کے دوران انہیں بھوکا رکھا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔  

فلسطینی حکام نے اس مہینے تل ابیب پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اسرائیل اور حماس تنازعے کے آغاز کے بعد سے فلسطینی قیدیوں کے خلاف ایک مکروہ ’انتقام کی جنگ‘ چھیڑ رہا ہے۔

اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدی

گذشتہ سال نومبر میں شائع ہونے والی الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حماس کی جانب سے اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کے حملوں سے قبل اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کو 20 جیلوں میں رکھا ہوا تھا۔  

سات اکتوبر سے قبل تقریباً 5200 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں حراست میں تھے۔ حماس کے حملے کے بعد تین ہزار مزید فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں 37 صحافی بھی شامل تھے۔ 

حماس نے بھی سات اکتوبر کے حملوں کے دوران 250 اسرائیلیوں کو قید کیا تھا اور دونوں اطراف سے قیدیوں کو آزاد بھی کیا گیا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الجزیرہ نے فلسطینی قیدیوں کی حمایت اور انسانی حقوق کی تنظیم ادمیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ زیادہ تر گرفتار صحافیوں کو انتظامی حراست کا نشانہ بنایا گیا، جس کا مطلب ہے کہ انہیں بغیر کسی مقدمے یا الزامات کا سامنا کیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔

ادمیر نے یہ بھی بتایا کہ قیدیوں کو جیلوں میں جسمانی تشدد اور طبی غفلت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 

اوسلو معاہدے پر دستخط ہونے سے پہلے سے کچھ فلسطینی قیدی 30 سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی جیلوں میں موجود ہیں۔ فلسطینی قیدیوں کی یکجہتی کے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک، سمیدون کی رپورٹ کے مطابق ’قیدیوں کے ڈین‘ کی اصطلاح بعض اوقات مقامی طور پر ان کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے 18 سال سے کم عمر کے کم از کم 700 فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار، پوچھ گچھ اور حراست میں لینے کے بعد ہر سال اسرائیلی فوجی عدالتوں کے ذریعے مقدمہ چلایا جاتا ہے۔

تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق اسرائیلی حراست میں بچے اکثر جسمانی، نفسیاتی اور جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں اور کچھ خوراک، پانی اور نیند سے بھی محروم ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا