مودی کا نیا روپ اور پاکستانی ردعمل

انتخابات میں مودی کو لگنے والے دھچکے سے خود ان کے گروپ میں موجود مخالفین کا حوصلہ بڑھا ہے اور اب انہوں نے اپنی سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی 22 جولائی 2024 کو نئی دہلی میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں خطاب کر رہے ہیں (سجاد حسین/ اے ایف پی)

انڈیا ایسا ملک ہے جس کی سیاست میں مضبوط مذہبی اقدار موجود ہیں۔ ہندو مت میں وشنو نظم وضبط برقرار رکھنے کا دیوتا ہے جو اچھے اور برے کے درمیان توازن کو بحال کرنے کے لیے مشکل وقت میں زمین پر واپس آتا ہے۔ ہندوؤں کے مقبول اوتار رام اور کرشن ہیں۔

اس لیے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں مودی کی دھوم دھام کے ساتھ شرکت، بنارش میں گنگا کنارے منصوبہ بندی کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں دکھائی دینا اور یہ دعویٰ کہ ان کی پیدائش عام حالات کے مطابق نہیں بلکہ انہیں آسمانی مقصد کی تکمیل کے لیے ’بھیجا‘ گیا ہے، یہ سب باتیں اہمیت کی حامل ہیں۔

اگر رام کی آمد کو مودی کی انتخابی فتح سے تعبیر کیا جائے تو اس کے بعد ہونے والے واقعات نے ان کی فتح کو خصوصی اہمیت دی ہے جو وشنو کی مداخلت سے ممتاز ہوتی ہے۔ تیسری مدت کے لیے وزیراعظم بننے کے بعد مودی کی سمت کیا ہو سکتی ہے یا کیا تبدیلیاں آئیں گی؟

پاکستانی پالیسی ساز مودی کے تیسری بار وزیراعظم بننے پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کریں گے۔ میں نے ان دو باتوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔

مودی اور ان کے اتحاد کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کی پوزیشن اور شہرت ’با اثر گروپ‘ یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں متاثر ہوئی ہے۔

ایک دہائی کی آہنی حکومت، اختیارات کی منتقلی اور اتفاق رائے کو نظر انداز کرنے کے عمل سے تحریک کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی۔ جو کوئی بھی اپنی ذات کو نمایاں کرے گا اور آر ایس ایس کے طویل مدت کے کھیل کو خطرے میں ڈالے گا اسے نظرانداز کر دیا جائے گا۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مودی آر ایس ایس تقریباً تمام بنیادی مقاصد کو پورا کر چکے ہیں۔ مودی اور امت شاہ کی جوڑی یکطرفہ طور پر فیصلے کرنے اور صحیح یا غلط طریقے سے اقتدار یا اس کے حصول پر اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہے۔

مودی کے کمزور ہونے سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اندر جانشینی کا ناگزیر عمل مزید تیز ہو گا۔

یہ ایک حساس مسئلہ ہے کیونکہ مودی ایک ایسے منفرد سیاست دان ہیں جو یقینی طور پر حالیہ دور میں انڈیا کے سب سے زیادہ مقبول سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی شخصیت اور اثرورسوخ نے لوگوں کی جانب سے ان کی مخالفت کا راستہ روکا ہے، لیکن انتخابات میں انہیں لگنے والے دھچکے سے خود ان کے گروپ میں موجود مخالفین کا حوصلہ بڑھا ہے اور اب انہوں نے اپنی سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔

سرکاری ملازمین کے آر ایس ایس میں شامل ہونے پر عائد پابندی کو واپس لینے کے فیصلے کا مطلب یہ کہ مودی نے آر ایس ایس کے سامنے کمزوری دکھائی۔ اس طرح امت شاہ کا منی پور جا کر سلامتی کی صورت حال کے جائزے کے لیے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرنا بھی ایک کمزوری ہے۔

انہوں نے اپنے چنیدہ منی پور کے وزیراعلیٰ بیرن سنگھ کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہ دے کر مزید کمزوری دکھائی، تاہم اب فیصلے کا اختیار آر ایس ایس کے پاس ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ راج ناتھ نئے سرے سے توجہ کا مرکز ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نتن گدکری، شیو راج سنگھ چوہان اور دیویندر فڈنویس اپنے زخموں پر مرہم رکھ رہے ہیں لیکن انتخابی نتائج انہیں نئی دہلی میں اپنا حصہ بڑھانے کی ترغیب دیں گے۔ مودی کو آر ایس ایس کی کسی بھی خاموش حمایت سے محتاط رہنا ہو گا۔

گدکری کو طویل عرصے سے اتفاق رائے پیدا کرنے والے شخص کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، جن کی موثر حکمرانی کی ساکھ قابل رشک ہے۔ ناگپور میں ان کے پارلیمانی حلقے سے انہیں اضافی فائدہ ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مودی کے اتحادی ناقابل اعتماد ہیں۔ وہ چندرا بابو نائیڈو اور ان کی تلیگو دیشم پارٹی پر صرف اس لیے بھروسہ کر سکتے ہیں کیونکہ نائیڈو اپنے سیاسی کیریئر کے آخری مرحلے میں واپسی آئے ہیں اور اقتدار کو اگلی نسل کو سونپنے سے پہلے اقتدار میں رہنے کے خواہاں ہیں۔ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے۔

امراوتی کو آندھرا پردیش کی نئی راجدھانی بنانے کا ان کا خواب پہلے ہی عملی شکل لینا شروع ہو چکا ہے۔ ان کے دوسرے ساتھی جنتا دل (یو) کے نتش کمار کچھ مہینے پہلے تک حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ کے سربراہ تھے۔ نتش کا سیاسی مصلحت کے تحت وفاداری تبدیل کرنے کا رجحان انہیں انڈین معیارات کے تحت بھی بدنامی کی حد تک ناقابل اعتماد بنا دیتا ہے۔

 ہریانہ اور مہاراشٹر میں ریاستی انتخابات پیچیدہ معاملہ ہوں گے۔ ان ریاستوں میں بی جے پی کی شکست ریاستی اداروں کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے کہ وہ اپنی خود مختاری پر زور دیں، اپنے لیے جگہ بنائیں، جو تیسری بار وزیراعظم بننے والے مودی کے لیے چیلنج ہو گا۔

مودی کے تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ دو غیر مساوی ملکوں کے درمیان ہمسایہ ہونے کی بنا پرتعلقات بحران کا شکار رہتے ہیں، لہٰذا پاکستان انڈیا تعلقات کوئی خاص بات نہیں۔ پاکستان کی دانشمندی ہو گی کہ وہ فریقین کو ساتھ لے کر انڈیا کے معاملے میں ایک پالیسی تشکیل دے۔

اس کی مستقل مزاجی کی بدولت اسے انڈیا میں داخلی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے مواقع ملیں گے۔ راہل گاندھی کی پسماندہ طبقات تک رسائی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

اگرچہ ان تبدیلیوں کو انڈین سیاست میں بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے، تاہم آمدن میں عدم مساوات، بے روزگاری اور دیہی علاقوں میں جاری جدوجہد کے نتیجے میں تبدیلیاں آئیں گی۔

پاکستان کی طرف سے خود نقصان پہنچانے والی پالیسیوں پر عمل ترک کرنے کی صورت میں پاکستان ’کواڈ‘ کی جگہ ابھرنے والے نئے گروپ ’سکواڈ‘ دنیا بھر میں لوگوں کو قتل کروانے کی انڈین مہم، مودی کے دورہ روس پر مغربی ملکوں میں ردعمل اور امریکہ میں انڈیا کے معاملے میں توقعات کم کرنے کے مطالبات، ایسی باتیں ہیں، جن سے پاکستان بہتر انداز میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت جاری رہنی چاہیے۔ خاص طور پر اس لیے کہ خطے میں انڈیا کے خلاف مقامی سطح پرمزاحمت بڑھ رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے واقعات کے نتیجے میں کشمیریوں کے خود ارادیت کے لیے عالمی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

ماضی میں جب بھی ایسی صورت حال پیدا ہوئی محض کمزور سی فائربندی پر اکتفا کیا گیا کیونکہ انڈیا مشرقی محاذ پر مصروف تھا۔ اس بار پاکستان کی جانب سے کوئی کمزوری دکھانے کی صورت میں مودی کو باہمی تعلقات میں حاوی ہونے کا موقع ملے گا، حالاں کہ ان کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔

نوٹ: کالم نگار توانائی کے شعبے میں کام کرتے ہیں اور معاصر امور کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں مقیم ہیں اور ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ 

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر