محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب نے 18 جولائی کو سرائے عالمگیر سے افغان شہری امین الحق کی گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی تھے اور ان کا نام اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔
سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی پریس کانفرنس کے بعد وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے 25 جولائی کو ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ ’مسٹر امین الحق کو پاکستان کی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مارچ 2024 میں گرفتار کیا تھا جب وہ غیر قانونی طور پر افغانستان سے پاکستان داخل ہو رہے تھے۔‘
سی ٹی ڈی اور وزارت خارجہ کی ترجمان کے بیانات میں فرق اپنی جگہ لیکن ان کے بیانات سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امین الحق کی گرفتاری شاید پاکستان کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ سی ٹی ڈی کے بقول وہ دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
ممکن ہے کہ پاکستان دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہو کہ پاکستانی مسلح تنظیموں کے علاوہ القاعدہ سے ماضی میں وابستہ شخصیات اب بھی اس کے ریڈار پر ہیں۔
ماضی میں افغانستان میں ’مجاہدین‘ حکومت اور طالبان کی سابق حکومت میں امین الحق ننگرہار میں نچلی سطح کی ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں۔ خیال ہے کہ وہ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے گرفتار ہوئے۔ پاکستان افغان طالبان پر دباؤ کے ساتھ ساتھ شاید پاکستان نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ شدت پسند افغانستان سے بدستور خطرہ ہیں اور ان کی آمد جاری ہے۔
امین الحق کے بھائی کا موقف
سی ٹی ڈٰی اور وزارت خارجہ ترجمان کے بیانات میں الزامات کے بارے میں میں نے کابل میں امین الحق کے چھوٹے بھائی ثنا الحق سے رابطہ کیا۔ انہوں نے حیرت انگیز طور پر امین الحق کی ایک نئی تاریخ یعنی 10 نومبر 2023 بتائی۔ اس بیان کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
البتہ ثنا الحق نے کہا کہ ’میرے بھائی کے خلاف جن الزامات کا ذکر کیا گیا ہے وہ پرانے ہیں، جن کی بنیاد پر وہ پہلے بھی پاکستان میں گرفتار ہوئے تھے لیکن ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے پانچ سال بعد رہا کر دیا گیا تھا۔‘
امریکہ اور نیٹو کے خلاف جنگ کے دوران امین الحق 2007 سے 2012 تک پاکستانی جیلوں میں قید تھے لیکن ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے بھی امین الحق کو 2013 میں بلیک لسٹ سے نکال لیا تھا اور اس کے بعد ان کا کسی تنظیم میں کوئی فعال کردار نہیں رہا تھا، جس کا انہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت بننے کے بعد ایک ویڈیو پیغام اور کئی انٹرویوز میں ذکر بھی کیا ہے۔
’اگر میری بھائی کے خلاف ثبوت ہوتے تو امریکی شاید ان کو دوسرے قیدیوں کی طرح امریکی حراستی مرکز گوانتانامو لے جاتے۔‘
ثنا اللہ نے یہ بھی کہا کہ ایف ائی آر میں جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست نہیں تاہم ان کا قانونی کارروائی کا بھی کوئی ارادہ نہیں کیونکہ ’ہمیں یقین ہے کہ ان پر الزامات بےبنیاد ہیں۔‘
ثنا الحق کا کہنا ہے کہ امین الحق کو گذشتہ سال نومبر میں اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ دیگر عام افغان باشندوں کی طرح علاج کی غرض سے پاکستان جا رہے تھے۔
پاکستان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تقریباً 100 مریضوں کو بغیر ویزہ کے پاکستان آنے کی اجازت دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گرفتاری سے شدت پسندوں کو کوئی فرق پڑے گا؟
پاکستان اب اس موقف کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ افغانستان سے شدت پسند دہشت گردی کے لیے پاکستان داخل ہوتے ہیں اور امین الحق کی گرفتاری کی اقوام متحدہ کو اطلاع دینے سے بین الاقوامی برادری کو اپنا دراندازی والا موقف پہنچایا ہے۔
اس پالیسی سے پاکستان ممکنہ طور پر ایک طرف بین الاقوامی برادری کو خود کو لاحق سکیورٹی خطرات سے آگاہ کرنا چاہتا ہے اور دوسری جانب افغانستان سے داخل ہونے والوں کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ پاکستان داخل ہونا ان کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔
گرفتاری میں افغان طالبان کے لیے کیا پیغام ہے؟
افغان طالبان سے ماضی میں وابستگی کے باوجود طالبان حکومت نے امین الحق کی گرفتاری کی خبروں پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، تاہم اس معاملے پر کئی افغان طالبان رہنماؤں سے گفتگو ہوئی ہے اور ان کے خاندان کے لوگوں نے رہائی میں مدد مانگی ہے۔
القاعدہ سے مبینہ وابستگی کی وجہ سے افغان طالبان بھی اس معاملے پر خاموشی کو ترجیح دیں گے کیونکہ دنیا القاعدہ سے متعلق بہت حساس ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے کوئی تصدیق تو نہیں لیکن یہ سننے میں آیا ہے کہ اگر امین الحق کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے تو انہیں پاکستان سے بےدخل کر کے افغان حکام کے حوالے کیا جائے گا۔
امین الحق کا ماضی
امین الحق ڈاکٹر امین الحق کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے بھائی ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کی پہلی حکومت (1996-2001) میں مشرقی صوبے ننگرہار میں شعبہ پناہ گزینہ سے وابستہ تھے۔
سابق سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے دوران وہ حزب اسلامی یونس خالص گروپ سے جڑے تھے لیکن 1994 میں ملا محمد عمر مجاہد کی جانب سے افغان طالبان کی بنیاد رکھنے کے بعد یونس خالص نے اپنا گروپ اس نئی تحریک میں ضم کر لیا تھا۔
کمیونسٹ صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے اور بعد میں مجاہدین کی حکومت بننے کے بعد امین الحق ننگرہار میں محکمہ منصوبہ بندی سے وابستہ رہے اور طالبان کی پہلی حکومت میں وہ پناہ گزینوں کے شعبہ کا ایک عہدہ رکھتے تھے۔
جب قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے تو طالبان قیدیوں کی فہرست تیار کرنے میں ان کی مدد لی گئی تھی لیکن انہوں نے کبھی قطر کا دورہ نہیں کیا۔
ایف ائی آر میں کیا ہے؟
سی ٹی ڈی کے اعلیٰ عہدیداران نے دعویٰ کیا تھا کہ امین الحق دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان سے منصوبے سے متعلق کوئی چیز برآمد ہوئی ہے یا نہیں اور یہ کہ یہ منصوبہ کیا تھا۔
ضلع گوجرانوالہ تھانہ سی ٹی ڈی میں جولائی 18 بوقت چار بج کر 45 منٹ پر درج کی گئی ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات شامل تو ہیں لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ امین الحق سے کتابیں، ایک تسبیح اور 5800 روپے برآمد ہوئے۔
ایف آئی ار میں امین الحق کا اسامہ بن لادن سے ان کے مبینہ تعلق کا ذکر کیا گیا ہے لیکن دہشت گردی کے کسی منصوبے کا کوئی ذکر نہیں۔
قانونی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا ایک شخص سے کتابیں اور تسبیح برآمد ہونے پر دہشت گردی کے مقدمات درج ہو سکتے ہیں؟ لیکن ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ نفرت انگیز مواد تقسیم کرنے کے لیے اتنی اہم شخصیت نے سرائے عالمگیر کا انتخاب کیوں کیا جو کام ایک پاکستانی شدت پسند آسانی سے کر سکتا ہے؟
امین الحق کی گرفتاری سرائے عالمگیر فوارہ چوک کے قریب بتائی گئی ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق پولیس اہلکاروں کو ’ذرائع‘ نے اطلاع دی تھی کہ امین الحق فوارہ چوک سرائے عالمگیر میں موجود ہیں اور نفرت انگیز مواد تقسیم کر رہے ہیں اور اگر فوری چھاپہ مارا جائے تو پکڑے جا سکتے ہیں۔
سی ٹی ڈی اور وزارت خارجہ کے موقف میں تضاد
سی ٹی ڈی اہلکاروں کی پریس کانفرنس اور وزارت خارجہ کی ترجمان کے بیانات میں امین الحق کی گرفتاری کے وقت اور الزامات سے متعلق تضاد ہے۔ یہ ایک لحاظ سے اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سی ٹی ڈی کی درج کردہ ایف آئی آر میں الزمات بھی مختلف نوعیت کے ہیں۔
وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے 25 جولائی کو ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ امین الحق کو پاکستان کی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مارچ 2024 میں گرفتار کیا تھا جب وہ غیر قانونی طور پر افغانستان سے پاکستان داخل ہو رہے تھے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ اطلاعات اقوام متحدہ کو مارچ میں فراہم کی تھی۔ سی ٹی ڈی تحقیقات میں اور عدالتی کارروائی میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔‘
وزارت خارجہ کی ترجمان سے سوال اس تناظر میں پوچھا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں امین الحق کی گرفتاری مارچ میں کرنے سے متعلق اطلاعات دی گئی تھی اور سی ٹی ڈی نے 18 جولائی کو گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا۔