پنجاب میں بجلی چوروں کے خلاف 61 ہزار سے زائد مقدمات درج: پولیس

ترجمان پنجاب پولیس کی طرف سے مہیا کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے پہلے سات ماہ کے دوران پنجاب بھر میں بجلی چوروں کے خلاف 61 ہزار 583 مقدمات درج کیے گئے۔

پنجاب پولیس کے مطابق بجلی چوری کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے  5055 ملزمان کو سزائیں اور جرمانے کروائے گئے (اینواتو)

انسپیکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت کے مطابق بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن مزید تیز کر دیا ہے۔

ترجمان پنجاب پولیس کی طرف سے مہیا کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے پہلے سات ماہ کے دوران پنجاب بھر میں بجلی چوروں کے خلاف 61 ہزار 583 مقدمات درج کیے گئے۔

ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق ’صوبے بھر میں بجلی چوری میں ملوث پائے جانے والے 32 ہزار 733 ملزمان کو پولیس نے اپنی گرفت میں لیا۔‘

اسی طرح بجلی چوری کے 37 ہزار 629 سے زائد مقدمات کے چالان مکمل کیے گئے جبکہ بجلی چوری کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے  5055 ملزمان کو سزائیں اور جرمانے کروائے گئے۔  

لاہور کی بات کریں تو ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں 18 ہزار ایک سو 56  مقدمات درج کیے گئے اور 17 ہزار سات سو 96  ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

آئی جی پنجاب عثمان انور کے مطابق لاہور سمیت ہر ضلع میں پولیس ٹیمیں بجلی چوروں کے خلاف جاری مہم میں معاونت فراہم کر رہی ہیں جبکہ آئی جی پنجاب نے تمام اضلاع میں موجود پولیس اہلکاروں کو بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن مزید تیز کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔

 آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ملزمان کے خلاف ’زیرو ٹالرنس‘ کے ساتھ بلا امتیاز کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔

بجلی چوری کرنے والوں کے لیے قانون کیا کہتا ہے؟

ایڈوکیٹ احمر مجید نے اس حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’قوانین موجود ہیں زیادہ تر انفرادی ایف آئی آر ہوتی ہے جبکہ اس قانون میں ترامیم بھی کی گئی ہیں جس کے تحت اب 2023 کے بعد سے بجلی چوری کے واقعات میں پولیس خود موقعے پر جا کر چوری کرنے والے کو گرفتار بھی کر لیتی ہے اور مقدمہ بھی درج کر لیتی ہے۔‘

ایڈوکیٹ احمر نے مزید کہا: ’وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون میں سختی کی گئی ہے یعنی اگر کوئی بجلی چوری کرنے والا گرفتار ہو جائے تو ان کی ضمانت جلدی نہیں ہوتی اور ضمانت تب ہی ہوتی ہے جب وہ انہیں واپڈا کی جانب سے موصول ہونے والا بجی کا بل ادا کریں گے۔‘

احمر کے خیال میں واپڈا والے بھی تھوڑی زیادتی کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی میکنزم نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ بجلی کب سے چوری ہو رہی ہے۔ ’اگر کسی نے اپنے میٹر کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی ہوئی ہے تو وہ ان کو لمبا چوڑا بل ڈال دیں گے یا رشوت طلب کرنے کے معاملات بھی ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس میں قید تو کم ہے لیکن جرمانہ بہت زیادہ ہے اور بل ادا کرنا لازمی ہوتا ہے اس میں چھوٹ ملنا مشکل ہوتا ہے۔

قوانین کیا کہتے ہیں؟

پاکستان پینل کوڈ ستمبر 2023 کی ترامیم کے سیکشن 462 جے کے مطابق گھریلو صارفین کی طرف سے بجلی کے میٹر میں مداخلت، غلط استعمال یا چھیڑ چھاڑ، برقی میٹر کو کسی بھی برقی لائن سے جوڑتا ہے جس کے ذریعے بجلی لائسنس یافتہ کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے یا کسی بھی الیکٹرک میٹر کو کسی بھی الیکٹرک لائن یا دیگر سے غیر مجاز طور پر دوبارہ جوڑتا ہے، ان میں شامل ہیں۔

سیکشن کے مطابق ریورسنگ ٹرانسفارمر، لوپ کنکشن یا کوئی اور ڈیوائس یا طریقہ،Contrivance  یا مصنوعی ذرائع جو درست یا مناسب میں مداخلت کرتے ہیں وہ بھ شامل ہیں۔

 ایک لائسنس یافتہ کی طرف سے فراہم کردہ توانائی کو ٹیرف ایک طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ جس کے لیے زیادہ ٹیرف نافذ ہے یا لائسنس یافتہ کی طرف سے فراہم کردہ توانائی کو تحفظ کے لیے نقصان دہ طریقے سے استعمال کرتا ہے یا برقی سپلائی لائن کا موثر کام کرنا یا اس کے ساتھ اس طرح سے نمٹنا دوسرے صارفین، یا افراد کو توانائی کی موثر فراہمی میں مداخلت کے نتیجے میں ایک سے دو سال قید یا دس لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

کمرشل میٹر میں مداخلت کے حوالے سے سیکشن 462 K کے مطابق اگر یہی سب کچھ کمرشل میٹر کے ساتھ ہو رہا ہے تو قانون کے مطابق ایسا کرنے والے کو تین سال قید، 60 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں کو سزائیں ہو سکتی ہیں۔

بجلی چوری کن طریقوں سے ہوتی ہے؟

لیسکو کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا: ’بجلی چوری کرنا پوری ایک سائنس ہے اور بجلی چوری کے مختلف طریقے ہیں کوئی ایک طریقہ نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذکورہ افسر کے مطابق ڈائریکٹ سپلائی جسے کنڈا ڈالنا کہتے ہیں وہ عام ہے۔

ان کے مطابق جو دیہاتی علاقے ہیں جیسے قصور، اوکاڑہ، شیخوپورہ، مریدکے، دریائے راوی کی بیلٹ ہے یہاں رجحان ڈائریکٹ سپلائی کا ہے۔

‘جیسے جیسے شہروں کے اندر داخل ہوں تو کنڈا سسٹم کم ہوتا جاتا ہے کیونکہ یہ سسٹم سامنے دکھائی دیتا ہے، اس لیے شہروں میں ٹیکنیکل طریقوں سے بجلی چوری ہوتی ہے جس میں میٹر کی ریورسنگ ہے یا بوگس میٹر لگا کر بجلی چوری کی جاتی ہے یعنی ایسی چوری جو فوری نہ پکڑی جائے بلکہ جب ہماری ٹیم تحقیق کرے تو وہ چوری سامنے آئے گی۔‘

مذکورہ افسر نے یہ بھی بتایا کہ بجلے گھریلو ہو یا کمرشل، میٹر ایک ہی طرح کا لگتا ہے اس لیے ان میں چوری بھی ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب بجلی چوری پکڑی جاتی ہے تو صارف کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوتی ہے جرمانہ بھی اور ان کی بجلی کی سپلائی بھی منقطع

کی جاتی ہے۔

’نیپرا نے کچھ ایس او پیز وضع کیے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی ڈائریکٹ سپلائی سے چوری کرتا پکڑا گیا ہے تو اس کو کس طرح سے بجلی کا بل چارج کیا جائے گا جو کہ  کم سے کم تین ماہ کا بل ہوتا ہے یا چھ ماہ کا جو چارج کیا جاتا ہے۔

اگر میٹر ریورس پکڑا گیا ہے یا کوئی اور طریقے سے بجلی چوری ہوئی ہے تو انہیں بل کتنا چارج کرنا ہے یعنی بجلی چوری کرنے کے طریقے کے مطابق بل چارج کیا جاتا ہے، یونٹس کی شکل میں کیلکولیشن ہوتی ہے اور وہ ہم بل کی شکل میں صارف کو دیتے ہیں کہ وہ بجلی کی سپلائی لائن کھلوانے کے لیے یہ بل ادا کرے۔‘

جب ہم نے مذکورہ افسر سے پوچھا کہ بجلی چوری کرنے والوں کے ساتھ کوئی مک مکا بھی ہوتا ہے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے جیسے اگر کوئی ٹیم کسی دور دراز دیہات میں گئی ہے تو یہ اس ٹیم کا دین ایمان ہے کہ وہ واپس آکر ساری چوریاں رپورٹ کر دے یا پھر وہ پکڑے دس لیکن دفتر آ کر وہ آٹھ چوریاں رپورٹ کر دے۔ یہاں ٹیم کے ساتھ کوئی کیمرے تو لگے نہیں ہوئے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان