حماس کی سفارت کاری کا چہرہ، اسماعیل ہنیہ کی زندگی پر نظر

غزہ کے حالیہ تنازعے کے آغاز سے اب تک اسماعیل ہنیہ کے تین صاحبزادے اسرائیلی فضائی حملے میں مارے جا چکے ہیں۔

ایران میں قاتلانہ حملے میں جان سے جانے والے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ فلسطینی گروپ کی بین الاقوامی سفارت کاری کا ایک چہرہ تھے۔

غزہ کے حالیہ تنازعے کے آغاز سے اب تک اسماعیل ہنیہ کے تین صاحبزادے اسرائیلی فضائی حملے میں مارے جا چکے ہیں۔

بہت سے سفارت کار انہیں حماس کے زیادہ سخت گیر ارکان کے مقابلے میں اعتدال پسند رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔

پاکستان میں اسماعیل ہنیہ کے سربراہ بننے کے بعد جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی اور مذہبی گروپوں کے ساتھ تعلقات میں قربت آتی رہی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کی وفات پر اپنای تعزیتی ویڈیو پیغام بھی بھیجا تھا جس میں پاکستان کی اہمیت کا اعادہ کیا تھا۔

اس کے علاوہ اسرائیل کی غزہ پر حالیہ جارحیت کے آغاز کے بعد پاکستان میں جماعت اسلامی کے فلسطین حامی مظاہروں میں سے چند میں اسماعیل ہنیہ نے اپنے خصوصی ویڈیو پیغامات بھیجے تھے اور غزہ میں امداد بھیجے جانے پر جماعت اسلامی کی ذیلی فلاحی تنظیم الخدمت کا شکریہ ادا کیا تھا۔

2017 میں حماس کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے والے اسماعیل ہنیہ ترکی اور قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل ہو گئے تھے، جس سے وہ غزہ کی ناکہ بندی سے بچ گئے اور زیادہ وقت جنگ بندی مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتے رہے تھے۔

حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو کیے جانے والے حملے کے فورا بعد ہنیہ نے قطر کے الجزیرہ ٹیلی ویژن پر اعلان کیا تھا کہ ’آپ (عرب ریاستوں) نے (اسرائیل) کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے جن تمام معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، ان سے یہ تنازع ختم نہیں ہوگا۔‘

غزہ میں محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اس حملے پر اسرائیل کا ردعمل ایک فوجی مہم ہے جس میں اب تک غزہ کے اندر 39 ہزار سے زائد فلسطینی کو بمباری کر کے قتل کیا جا چکا ہے۔

فضائی حملے میں بیٹے مارے گئے

حماس کے بقول 10 اپریل 2024 کو اسرائیل کے فضائی حملے میں ہنیہ کے تین بیٹے حازم، عامر اور محمد اس وقت مارے گئے جب اسرائیلی فضائیہ نے اس کار کو نشانہ بنایا جس میں وہ سفر کر رہے تھے۔

حماس کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ہنیہ نے اپنے چار پوتے پوتیوں کو، جن میں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا، بھی کھو دیا ہے۔

ہنیہ نے اسرائیل کے ان دعوؤں کی تردید کی تھی کہ ان کے بیٹے اس گروپ کے جنگجو ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے بیٹوں کی موت سے فائر بندی کے مذاکرات متاثر ہوں گے تو اور ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینی عوام کے مفادات ہر چیز سے بالاتر ہیں۔‘

عوامی سطح پر تمام تر سخت بیان بازی کے باوجود عرب سفارت کار اور حکام انہیں غزہ کے اندر زیادہ سخت گیر آوازوں کے مقابلے میں نسبتا حقیقت پسندانہ سمجھتے تھے۔

اسرائیلی فوج کو یہ بتاتے ہوئے کہ وہ ’غزہ کی ریت میں غرق ہو جائے گی‘، انہوں نے اور حماس کے سابق رہنما خالد مشعل نے قطر کی ثالثی میں ایک فائر بندی معاہدے کے لیے مذاکرات کیے۔

اس معاہدے میں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے ساتھ حماس کے پاس موجود اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ اور غزہ کے لیے مزید امداد شامل ہوگی۔

اسرائیل حماس کی پوری قیادت کو دہشت گرد سمجھتا ہے اور اس نے ہنیہ، مشعل اور دیگر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’حماس دہشت گرد تنظیم کی لگام کھنچ رہے ہیں۔‘

لیکن سات اکتوبر کے حملے کے بارے میں ہنیہ کو پہلے سے کتنا علم تھا، یہ واضح نہیں ہے۔ غزہ میں حماس کی فوجی کونسل کی جانب سے تیار کیا گیا یہ منصوبہ اس قدر خفیہ تھا کہ حماس کے کچھ عہدے دار اس کے وقت اس کی وسعت اور پیمانے سے حیران دکھائی دے رہے تھے۔

اس کے باوجود ہنیہ نے حماس کی لڑنے کی صلاحیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، جزوی طور پر ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے کر، جس کی حمایت اس گروپ کے لیے کوئی راز نہیں ہے۔

اس دہائی کے دوران جب ہنیہ غزہ میں حماس کے سرکردہ رہنما تھے، اسرائیل نے ان کی قیادت کی ٹیم پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ انسانی امداد کو گروپ کے فوجی ونگ کی طرف موڑنے میں مدد کر رہے ہیں۔ حماس نے اس کی تردید کی تھی۔

شٹل سفارت کاری

2017 میں جب انہوں نے غزہ چھوڑا تو ان کے بعد یحییٰ سنوار نے اقتدار سنبھالا، جو دو دہائیوں سے زائد عرصے تک اسرائیلی جیلوں میں قید رہے اور سنہ 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد ہنیہ نے انہیں غزہ میں دوبارہ خوش آمدید کہا تھا۔

قطر یونیورسٹی میں فلسطینی امور کے ماہر ادیب زادہ نے اپنی موت سے قبل کہا تھا کہ ’ہنیہ عرب حکومتوں کے ساتھ حماس کے لیے سیاسی جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’وہ حماس کا سیاسی اور سفارتی محاذ ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہانیہ اور مشعال نے مصر میں حکام سے ملاقات کی تھی، جس نے فائر بندی مذاکرات میں ثالثی کا کردار بھی ادا کیا ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ہنیہ نومبر کے اوائل میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کے لیے تہران گئے تھے۔

تین سینیئر عہدیداروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں حماس کے رہنما کو بتایا تھا کہ ایران جنگ میں شامل نہیں ہوگا کیوں کہ اس کے بارے میں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ شائع ہونے سے قبل حماس نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا اور پھر اس کی اشاعت کے بعد تردید جاری کی۔

ایک نوجوان کے طور پر، ہنیہ غزہ شہر میں اسلامی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کارکن تھا۔

انہوں نے حماس میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب یہ 1987 میں پہلی فلسطینی انتفادہ (بغاوت) میں تشکیل دی گئی۔ انہیں گرفتار کر کے مختصر وقت کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔

ہنیہ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے شاگرد بن گئے، جو ہنیہ کے خاندان کی طرح اشکلون کے قریب الجورا گاؤں سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین تھے۔

1994 میں انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ یاسین فلسطینی نوجوانوں کے لیے ایک ماڈل ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے ان سے اسلام سے محبت اور اس اسلام کے لیے قربانیاں دینا سیکھا اور ان ظالموں اور جابروں کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا سیکھا۔‘

2003 تک وہ شیح احمد یاسین کے ایک قابل اعتماد معاون رہے، جن کی یاسین کے غزہ کے مکان میں تقریبا مکمل طور پر مفلوج حماس کے بانی کے کان پر فون رکھ کر تصویر کھینچی گئی تھی تاکہ وہ بات چیت میں حصہ لے سکیں۔ یاسین کو اسرائیل نے 2004 میں قتل کر دیا تھا۔

ہنیہ حماس کے سیاست میں داخل ہونے کے ابتداء میں حامی تھے۔

1994 میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ایک سیاسی جماعت بنانے سے حماس کو ابھرتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔‘

ابتدائی طور پر حماس کی قیادت نے اسے مسترد کر دیا تھا لیکن بعد میں اسے منظور کر لیا گیا تھا اور 2006 میں اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کے ایک سال بعد گروپ نے فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی جس کے بعد ہنیہ فلسطینی وزیر اعظم بن گئے تھے۔

اس گروپ نے 2007 میں غزہ پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

سنہ 2012 میں جب نامہ نگاروں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا حماس نے مسلح جدوجہد ترک کر دی ہے تو ہانیہ نے جواب دیا تھا کہ ’بالکل نہیں‘ اور کہا کہ ’عوامی مزاحمت، سیاسی، سفارتی اور فوجی مزاحمت‘ تمام طریقوں سے جاری رہے گی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا