انڈیا کا سب سے جدید جوہری پلانٹ تکمیل کے قریب

جوہری توانائی کے اس پلانٹ کے کام شروع کرنے کے بعد ہندوستان اور روس کے ساتھ دنیا کے صرف دو ممالک میں شامل ہو جائے گا جہاں تجارتی طور پر فاسٹ بریڈر ری ایکٹر چل رہے ہیں۔

27 مارچ، 2018 کو ریاست اتر پردیش میں نورورا کے قریب نورورا اٹامک پاور اسٹیشن کے ساتھ ایک کچی سڑک پر ایک ہندوستانی شخص موٹر سائیکل چلا رہا ہے( اے ایف پی)

انڈیا اپنے جدید ترین جوہری پلانٹ کی تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے جو ملک کے جوہری توانائی پروگرام میں ایک اہم پیش رفت ہے۔

جنوبی ریاست تمل ناڈو کے علاقے کلپکم میں واقع اس پروٹو ٹائپ فاسٹ بریڈر ری ایکٹر (پی ایف بی آر) کو ملک کے جوہری ریگولیٹر سے جوہری ایندھن بھرنے کی منظوری مل گئی ہے۔

پی ایف بی آر 500 میگاواٹ کا مائع سوڈیم کولڈ ری ایکٹر ہے جو گذشتہ 20 سالوں سے بنایا جا رہا ہے۔ یہ منظوری انڈیا کے سب سے جدید اور پیچیدہ نیوکلیئر ری ایکٹر میں کنٹرولڈ چین ری ایکشن کے آغاز کی علامت ہے۔

اگرچہ کولنٹ کے طور پر خطرناک مواد سوڈیم کے استعمال پر تشویش پائی جاتی ہے، لیکن ملک کے جوہری بورڈ نے کہا ہے کہ اس نے پی ایف بی آر کے حفاظتی جائزے کیے، جس کے ساتھ وقتا فوقتا معائنے بھی کیے گئے ہیں۔

آپریشنل ہونے کے بعد انڈیا روس کے ساتھ دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہو جائے گا جہاں تجارتی طور پر فاسٹ بریڈر ری ایکٹرز کام کر رہے ہیں۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ (اے ای آر بی) کے چیئرمین دنیش کمار شکلا نے کہا کہ ’یہ انڈیا کے خود کفیل جوہری توانائی پروگرام کے لیے ایک بہت بڑا سنگ میل ہے۔‘

شکلا نے کہا کہ پی ایف بی آر ایک ’فطری طور پر محفوظ ری ایکٹر‘ ہے۔

پی ایف بی آر کو مکمل طور پر ملک میں ہی ڈیزائن اور تعمیر کیا گیا ہے جس میں 200 سے زائد انڈین صنعتوں کا تعاون شامل ہے، جس میں انڈین حکومت کے خود کفیل ہونے کے مقصد کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

اس کی پیچیدگی اور مقامی ٹیکنالوجی کی ضرورت کی وجہ سے، یہ منصوبہ مکمل ہونے میں تاخیر ہوئی اور لاگت بڑھی، جو اب 68 ارب 40 کروڑ انڈین روپے (65 کروڑ 14 لاکھ 30 ہزار پاؤنڈ) تک پہنچ چکی ہے۔

محکمہ جوہری توانائی (ڈی اے ای) کا کہنا ہے کہ پی ایف بی آر فعال حفاظتی خصوصیات کے ساتھ تیسری نسل کا ری ایکٹر ہے جو ہنگامی حالات میں محفوظ شٹ ڈاؤن کو یقینی بناتا ہے۔ یہ انڈیا کے جوہری پروگرام سے خرچ ہونے والے ایندھن کا استعمال کرتا ہے، جوہری فضلے اور جیولوجیکل ڈسپوزل کی ضرورت کم کرتا ہے۔

اپنی جدید ٹیکنالوجی کے باوجود پی ایف بی آر کے سرمائے اور بجلی کے اخراجات کا موازنہ دیگر جوہری اور روایتی پاور پلانٹس سے کیا جاسکتا ہے۔

پی ایف بی آر کی منظوری انڈیا کی جانب سے پلوٹونیم کو جوہری ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کی بھی نشاندہی کرتی ہے اور مستقبل میں تھوریئم کے استعمال کی راہ ہموار کرتی ہے، جو ایک ایسا وسائل جس کے انڈیا کے پاس بہت ذخائر ہیں۔

یورینیم کے برعکس، جو انڈیا میں بہت کم ہے، تھوریم سے توانائی کے شعبے میں طویل مدتی خومختاری کا موقع ملتا ہے، جو ممکنہ طور پر 300 سال سے زیادہ عرصے تک کے لیے ہے۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ تھوریئم کے استعمال کی ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے سے انڈیا کے توانائی کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

پی ایف بی آر جیسے فاسٹ بریڈر ری ایکٹرز منفرد ہیں کیونکہ یہ استعمال سے زیادہ ایندھن پیدا کرتے ہیں، جس سے انہیں تقریبا لامحدود توانائی کا لگتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’فاسٹ‘ کی اصطلاح سے مراد ان ری ایکٹرز میں استعمال ہونے والے زیادہ توانائی والے تیز نیوٹرون ہیں۔ انڈیا پہلے ہی اسی مقام پر ایک فاسٹ بریڈر ٹیسٹ ری ایکٹر (ایف بی ٹی آر) چلارہا ہے، جو 39 سال سے کام کر رہا ہے۔

بورڈ کی منظوری سے ایندھن بھرنے اور کم درجے کے تجربات شروع کرنے کی اجازت مل گئی ہے اور توقع ہے کہ یہ ری ایکٹر آنے والے مہینوں میں آپریشنل ہوجائے گا۔

پی ایف بی آر ابتدائی طور پر یورینیم پلوٹونیم مکسڈ آکسائیڈ (ایم او ایکس) ایندھن استعمال کرے گا۔ مرکز کے ارد گرد ایک یورینیم -238 ’بلانکٹ‘ جوہری منتقلی کے ذریعے زیادہ ایندھن پیدا کرے گی۔ اس عمل، جس کو بریڈنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، کی وجہ سے ان ری ایکٹرز کا نام رکھا جاتا ہے۔

مستقبل میں تھوریئم-232 کو بلانکٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے ٹرانسمیشن کے ذریعے فسائل یورینیم-233 پیدا ہوگا، جسے انڈیا کے جوہری پروگرام کے تیسرے مرحلے میں استعمال کیا جائے گا۔ یہ مرحلہ انڈیا کے وسیع تھوریئم ذخائر کو بروئے کار لانے کے لیے اہم ہے۔

جوہری توانائی کو بجلی کا ایک قابل اعتماد اور کم کاربن ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے جو آب و ہوا کے بحران کا سبب بنتا ہے اور توانائی کی فراہمی کو متنوع بناتا ہے۔ تاہم ، حفاظت اور فضلے کے بارے میں خدشات موجود ہیں جن پر محققین نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حال ہی میں چین نے دنیا کے پہلے ’میلٹ ڈاؤن پروف‘ نیوکلیئر پاور پلانٹ متعارف کرایا ہے۔

اب تک ملک کی کل بجلی کی پیداوار میں جوہری توانائی کا حصہ صرف 3.11 فیصد ہے۔ لیکن انڈیا 2047 تک اپنی بجلی کا تقریبا نو فیصد جوہری توانائی حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ اس ٹیکنالوجی میں تیزی سے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

انڈیا کا تازہ ترین سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ جوہری توانائی انڈیا کی ترقی کے لئے ’توانائی مکس کا ایک بہت اہم حصہ‘ ہوگی۔

حکومت 2031 تک انڈیا کی جوہری توانائی کی صلاحیت کو 6،780 میگاواٹ سے بڑھا کر 22،480 میگاواٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس میں 18 نئے ری ایکٹرز کی تعمیر شامل ہوگی جو مجموعی طور پر 13.8 گیگاواٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ پی ایف بی آر کے بعد دو اور فاسٹ بریڈر ری ایکٹر پائپ لائن میں ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا