انڈیا نے 23 جولائی 2024 کو مالی سال 2024-2025 کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ بجٹ کا حجم 576 ارب ڈالر ہے جو انڈین سکے میں 48.21 لاکھ کروڑ روپے بنتا ہے۔
انڈیا ہر سال فروری میں سالانہ بجٹ پیش کرتا ہے اور اس کا مالی سال یکم اپریل کو شروع ہوکر 31 مارچ کو ختم ہوتا ہے لیکن اس سال انڈیا میں انتخابات کی وجہ سے سالانہ بجٹ فروری میں پیش نہیں کیا جا سکا تھا۔
وزیرخزانہ نرملا سیتھارامن نے ساتویں مرتبہ بجٹ پیش کیا ہے اور یہ مودی سرکار کے تیسرے دورِ حکومت کا پہلا بجٹ ہے۔ اسے یونین بجٹ 2024-2025 بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے بجٹ میں کافی فرق ہے۔ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور 42 ویں نمبر کی معیشت میں فرق تو ہو گا۔ اس فرق کو تفصیل سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلا فرق تو یہ ہے کہ انڈیا میں بجٹ پیش کرتے وقت حزب اختلاف نے بجٹ کی کاپیاں نہیں پھاڑیں جبکہ پاکستان میں بجٹ کی کاپیاں پھاڑنا شاید حزب اختلاف کے فرائض میں شامل ہے۔
انڈیا میں بجٹ پیش ہونے کے بعد تقریباً تمام شعبوں کے لوگ خوش دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ بجٹ میں ہر انڈین کے لیے کوئی ریلیف یا اچھی خبر ضرور ہے جبکہ پاکستان میں بجٹ آنے کے بعد تقریباً ہر طبقہ سڑکوں پر احتجاج کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
انڈیا میں بجٹ میں ہر نجی شعبے، عام آدمی، خصوصا مڈل کلاس کو ریلیف دیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں بجٹ میں ہر ریٹائرڈ، حاضر سروس سرکاری ملازم، ہر ریٹائرڈ ،حاضر سروس فوجی ملازم اور ہر سیاستدان کو ریلیف دیے گئے ہیں۔
انڈین بجٹ عام عوام کا بجٹ ہے اور پاکستانی بجٹ سرکاری ملازمین، فوج اور سیاستدانوں کا بجٹ ہے۔
کسی بھی ملک کا سب سے بڑا طبقہ تنخواہ دار طبقہ ہوتا ہے۔ اس کو ریلیف دینے کا مطلب ہے کہ عوام کی بڑی تعداد کو ریلیف مل گیا۔ انڈیا میں ملازمت پیشہ طبقے کو بڑا ریلیف دیا گیا ہے۔
ٹیکس کاٹنے کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر 75 ہزار کر دی گئی ہے۔ اس سے انڈین سرکار کو تقریباً 37 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو گا لیکن سرکار نے عوام کے مطالبے کے آگے سر جھکانا زیادہ ضروری سمجھا۔
ایک اندازے کے مطابق نئے ٹیکس نظام میں ایک تنخواہ دار ملازم کو انکم ٹیکس میں ساڑھے 17 ہزار انڈین روپے تک کی بچت ہوگی۔ تین لاکھ روپے کی آمدن میں ٹیکس صفر کر دیا گیا ہے۔ پہلے یہ حد ڈھائی لاکھ روپے تھی۔
تنخواہ دار طبقہ کئی سالوں سے ٹیکس ریلیف دینے کا مطالبہ کر رہا تھا جسے پورا کر دیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس ریلیف دینے کی بجائے مزید ٹیکسز لگا دیے گئے ہیں۔
چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ تنخواہ لینے والے پاکستانیوں پر ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ یہ اضافہ 100 فیصد بنتا ہے۔
انڈیا میں تقریبا 65 فیصد عوام کی عمر 35 سال سے کم ہے۔ یہ بجٹ ان کو فوکس کرتا دکھائی دیتا ہے۔ انڈیا میں تنخواہ دار طبقہ حکومت سے خوش ہے اور سرکار کا شکریہ ادا کرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ بڑھتے ہوئے ٹیکسز کی وجہ سے سڑکوں پر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔
انڈین سرکار نے اگلے پانچ سالوں میں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے 24 ارب ڈالرز کا بجٹ رکھا ہے جبکہ پاکستان میں اس طرح کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔
پاکستان اور انڈیا میں دفاعی بجٹ ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے۔ جن ممالک کے بارڈرز پر حالات اکثر خراب رہتے ہوں وہاں دفاعی بجٹ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
مالی سال 2024-2025 کے بجٹ میں بھارتی سرکار نے دفاعی بجٹ چھ لاکھ 21 ہزار 940 لاکھ کروڑ روپے رکھا ہے۔ پچھلے سال دفاعی بجٹ تقریبا چھ لاکھ کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔
پاکستان اور انڈیا کے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہوتا آیا ہے۔ پاکستان مالی سال 2024-25 بجٹ میں دفاع کے لیے دو ہزار 122 ارب روپے مختص کیے ہیں جو پچھلے سال کی نسبت تقریبا 17 فیصد زیادہ ہے۔
انڈیا کا دفاعی بجٹت کل بجٹ کا 12.9 فیصد ہے جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ، کل بجٹ کا تقریبا 11.23 فیصد ہے۔
انڈیا کے تقریباً تمام بارڈرز تنازعات کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگر پاکستان اور انڈیا کے بارڈر پر تناؤ کم ہو جائے تو چین اور دیگر سرحدوں پر بھی حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
انڈیا اور پاکستان کے دفاع پر لگنے والے بجٹ کو تعلیم ترقی اور صحت پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
اگر تعلیم کے بجٹ کی بات کی جائے تو انڈیا نے 1.48 لاکھ کروڑ روپے تعلیم اور تربیت کے لیے مختص کیے ہیں جو کہ ماضی کی نسبت 6.8 فیصد اضافہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 10 لاکھ روپے تک قرض بھی دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ایک کروڑ افراد کو ملک کی 500 بڑی کمپنیوں میں انٹرنشپ کروائی جائے گی۔ 20 لاکھ نوجوانوں کو اگلے پانچ سالوں میں ماہر اور تربیت یافتہ بنانے کامنصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
پاکستان نے بھی اس سال تعلیم کے وفاقی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ مالی سال 2023 میں تعلیم اور جی ڈی پی کا تناسب 1.5 فیصد تھا جو اس سال بڑھا کر 1.9 فیصد کیا گیا ہے۔
پاکستان میں تعلیم کا وفاقی بجٹ تقریبا 103 ارب روپے ہے۔ اگر صوبوں کو بھی ملا لیا جائے تو 1622 ارب روپے بنتا ہے۔
انڈیا کا تعلیم اور جی ڈی پی کا تناسب دیکھا جائے تو وہ تقریباً تین فیصد ہے۔ کل بجٹ کے ساتھ بھی تناسب تقریباً تین فیصد ہے جبکہ بین الاقوامی معیار چار فیصد ہے۔ پاکستان اور انڈیا دونوں اس معیار پر پورا نہیں اترتے۔
اس شعبے میں دونوں ممالک کو کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان کو شاید زیادہ ضرورت ہے۔
انڈیا میں صحت کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ 90 ہزار 658 کروڑ کا بجٹ پیش کیا گیا ہے جو کہ پچھلے مالی سال کی نسبت 12.59 فیصد زیادہ ہے۔ یہ کل بجٹ کے دو فیصد سے کم ہے۔
پاکستان میں صحت کا وفاقی بجٹ تقریباً 27 ارب پاکستانی روپے ہے جو کہ کل بجٹ کا صفر عشاریہ 14 فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں صحت چوں کہ صوبائی معاملہ ہے تو اگر تمام صوبوں کے بجٹ شامل کیے جائیں تو یہ تقریباً 1195 ارب روپے بنتا ہے۔
پاکستان میں صحت کارڈ کی سہولت انڈیا سے بہتر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بجٹ 2024-25 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک لانے کا ہدف ہے جبکہ انڈیا نے مالی سال 2024-25 بجٹ میں مہنگائی کا ہدف چار فیصد رکھا ہے۔
جس وقت بجٹ پیش کیا جا رہاہے اس وقت انڈیا میں مہنگائی 5.08 فیصد ہے جب پاکستان میں جب بجٹ پیش کیا گیا تو مہنگائی 12.6 فیصد تھی۔
انڈیا میں مہنگائی میں کمی کی وجہ کم شرح سود اور درآمدات کی بجاے مقامی اشیا پر انحصار زیادہ کرنا ہے۔ پاکستان کو بھی مقامی سطح پر پیدوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انڈیا نے مالی خسارہ جی ڈی پی کا 4.9 فیصد مقرر کیا ہے جو کہ فروری میں پیش کیے گئے خسارے 5.1 فیصد سے کم ہے۔ مالی سال 2026 میں مالی خسارے کا ہدف 4.6 فیصد رکھا گیا ہے۔
پاکستان میں بجٹ خسارہ تقریباً 5.9 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ خسارے کے ہدف میں بظاہر زیادہ فرق نہیں ہے لیکن دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
مودی سرکار نے بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بیرونی کمپنیوں پر ٹیکس ریٹ 40 فیصد سے کم کر کے 35 فیصد کر دیا ہے جبکہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیاں اپنا منافع بھی ملک سے باہر لے جانے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے اور بجٹ 2024-25 میں اسے بڑھانے کے لیے کوئی واضع پالیسی نہیں دی گئی ہے۔
انڈیا میں کیپیٹل گین ٹیکس چھوٹ کی حد سوا لاکھ سالانہ تک بڑھا دی گئی ہے تاکہ درمیانے اور کم آمدن والے طبقے کو ریلیف مل سکے۔ یونین بجٹ میں صرف سکیورٹیز پر کیپیٹل گین ٹیکس بڑھایا گیا ہے جبکہ پاکستان میں کیپیٹل گین ٹیکس ہر خاص و عام پر لگا دیا گیا ہے جو 15 فیصد سے لے کر 45 فیصد تک جاتا ہے۔
انڈیا نے نئے بجٹ میں ٹیکسٹائل سیکٹر میں بہتری کے لیے کئی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی یا تو کم کر دی گئی ہے یا ختم کر دی ہے تا کہ برآمدات میں مزید بہتری آسکے جس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے شیئرز کی قیمتیں بڑھی ہیں۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل سمیت تمام ایکسپورٹرز پر 35 فیصد تک ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی ٹیسکٹائل صنعت انڈین ٹیسکٹائل سے کس طرح مقابلہ کر سکتی ہے؟
یونین بجٹ میں زراعت کے لیے 1.52 لاکھ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو کہ ٹوٹل بجٹ کا تقریبا تین فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں زراعت پر ٹیکس صوبوں کی ذمہ داری ہے۔
انڈین بجٹ کے مطابق ایک کروڑ گھروں کو 300 یونٹس تک بجلی مفت دی جائے گی۔ جبکہ پاکستان میں 300 یونٹس بجلی استعمال کرنے والے کا بجلی کا بل تقریباً 30 ہزار روپے آتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ انڈیا اور پاکستان کی معیشتوں کا مقابلہ کیا جاتا تھا کہ کون بہتر ہے لیکن پچھلے کچھ سالوں سے انڈیا نے جس رفتار سے ترقی کی ہے، پاکستان انڈیا سے مقابلے میں شاید باہر ہو گیا ہے۔
انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے اور پاکستان کا نمبر 42 واں ہے۔
دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا 42 نمبر کی معیشت سے مقابلہ کیسے ہو سکتا ہے؟
بھارت کے صرف مہاراشٹرا کا جی ڈی پی پورے پاکستان کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔
مہاراشٹرا کا جی ڈی پی 415 ارب ڈالر ہے اور پاکستان کا جی ڈی پی 373 ارب ڈالر ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق 2027 تک انڈیا دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ فی الحال جاپان تیسرے اور جرمنی چوتھے نمبر پر ہے یعنی امریکہ اور چین کے بعد انڈیا بڑی معیشت ہو گا۔
انڈیا کا بجٹ تیسری معاشی طاقت بننے کے نظریے سے بنایا گیا ہے جبکہ پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے نظریے سے بنایا گیا ہے اس لیے یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ انڈیا کا بجٹ پاکستان کے بجٹ سے بہتر ہے۔