اسلام آباد پولیس نے سرکاری وردی میں ’غیر اخلاقی‘ ویڈیوز بنا کر انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والی دو خواتین کانسٹیبلز کو ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔
30 جولائی کو سپرنٹنڈنٹ پولیس سٹی زون اسلام آباد ارسلان شاہ زیب کی جانب سے جاری کیے گئے حکم میں کہا گیا کہ خاتون کانسٹیبل مریم بھٹی، جو خواتین پولیس سٹیشن میں تعینات تھیں، کی ’عادتاً غیر حاضری اور ڈیوٹی کے حوالے سے رویہ غیر سنجیدہ ہے۔‘
حکم نامے کے مطابق خاتون کانسٹیبل کا ایک ٹک ٹاک سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہے، جہاں انہوں نے سرکاری وردی پہن کر ’نامناسب ویڈیوز‘ اپ لوڈ کی ہیں۔
مزید کہا گیا: ’اس طرح وردی اور سول کپڑوں میں ہوٹلوں، کیفے، بارز وغیرہ میں غیر اخلاقی سرگرمیاں، ان کی سرکاری ذمہ داریوں کو نبھانے میں سراسر غفلت، نااہلی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں، جو انہیں متعلقہ قوانین کے تحت مجرم بناتی ہے۔‘
حکم نامے میں کہا گیا کہ خاتون اہلکار کو پیش کیے گئے الزامات کے بیان کے ساتھ ایک چارج شیٹ اور محکمانہ انکوائری بھی شروع کر دی گئی ہے۔ اس کیس کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لینے کے بعد حتمی رائے دی گئی ہے کہ لیڈی کانسٹیبل قصوروار ہیں اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے بڑی سزا کی سفارش کی جائے۔
حکم نامے کے مطابق خاتون کانسٹیبل کو گذشتہ ماہ 24 جولائی کو متعلقہ افسر نے ذاتی طور پر بلا کر سنا، جہاں ان کا تحریری اور زبانی بیان ’غیر تسلی بخش‘ پایا گیا۔ اس ضمن میں پنجاب پولیس کے 1975 قوانین کے تحت انہیں ’ملازمت سے برطرف‘ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈولفن و پیٹرولنگ علی رضا نے بھی ایک خاتون کانسٹیبل کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ویڈیوز پوسٹ کرنے پر برطرف کر دیا ہے۔
ان کی جانب سے حکم نامے میں ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں خاتون کانسٹیبل مقدس ناز اس وقت ڈولفن اسلام آباد میں تعینات ہیں۔ وہ سرکاری وردی پہن کر سرکاری گاڑی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز بنا رہی تھیں، جو انہوں نے بعد ازاں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکم نامے کے مطابق: ’ویڈیو میں اسلام آباد کے سینیئر افسران کو بھی ٹیگ کیا گیا، جس کی وجہ سے پولیس کو شرمندگی ہوئی اور محکمے کی بدنامی ہوئی۔ ان کا یہ عمل ناقابل برداشت ہے اور نظم و ضبط کے اصولوں کے خلاف ہے۔‘
حکم نامے میں کہا گیا کہ تمام اہلکاروں کو ڈیوٹی کے اوقات میں ایسی حرکتوں سے گریز کرنے کا حکم دیا گیا لیکن وہ مجاز اتھارٹی کی ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔
حکم نامے کے مطابق خاتون کانسٹیبل نے جان بوجھ کر حکومت کے مقررہ نظم و ضبط اور طرز عمل کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے اس کے فعل کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ اتھارٹی نے یہ فیصلہ پنجاب پولیس کے قوانین کے تحت کیا۔
’انکوائری افسر نے انہیں سنگین بدانتظامی کا قصوروار پایا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی، جس کے بعد انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔‘
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ انڈین گانوں پر ویڈیوز بنا کر ان کی تشہیر کرنا ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے مثبت مواد جس میں انڈین گانے نہ ہوں، وہ مواد آپ بنا سکتے ہیں۔‘
اس سوال پر کہ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل کی بھی ٹک ٹاک پر ویڈیوز اپ لوڈ ہو چکی ہیں؟ ترجمان نے جواب دیا کہ ’ایسے وقت میں جب تمام سرکاری ادارے اور شخصیات سوشل میڈیا پر موجود ہیں، یہ عوام تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ضابطہ کار (ایس او پی) کے مطابق انڈین گانوں پر ویڈیو نہ بنائیں اور وردی میں ایسی ویڈیوز نہ بنائیں جو وردی کے تقدس کو پامال کرتی ہوں۔‘
اس سوال پر کہ ’صرف انڈین گانوں پر ہی ویڈیو نہ بنانے کا ایس او پی کیوں ہے، دوسرے غیر ملکی گانوں پر کیوں نہیں؟‘ ترجمان اسلام آباد پولیس نے جواب دیا کہ ’ریاست کی پالیسی کے مطابق انڈین گانوں پر پابندی ہے اور اس کے تحت پاکستان کے سینیما میں انڈین فلموں کی تشہیر نہیں کی جاتی۔‘