ابھی پچھلے ہفتے گلزار صاحب کے بارے میں ایک بلاگ لکھا تھا۔ وہ تحریر میری ایک ایوریج پوسٹ کی طرح پڑھی گئی۔ چند دوستوں کو پسند آئی، کچھ کمنٹس آئے اور چل سو چل۔
پھر یہ ہوا کہ فیس بک پر ایک صاحب پون جھا نے اس بلاگ کے نیچے کمنٹ کیا۔ انہوں نے لکھا کہ گلزار صاحب اسے پڑھ کر واقعی بہت خوش ہوئے اور وہ آپ تک اپنی پسندیدگی کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیا آپ اپنا فون نمبر اور ای میل دیجیے گا؟ کچھ دیر میں علم ہوا کہ وہ گلزار صاحب کے ساتھ ہوتے ہیں۔ پون جھا کی فرینڈ ریکوئسٹ کا اعزاز قبول کرنے کے بعد اِن باکس میں جھانکا تو وہاں بھی یہی میسج تھا۔ فقیر نے ترنت نمبر ای میل سمیت بھیج دیا اور اس بات کی خوشی منانے لگا کہ گلزار صاحب کی سند مل گئی، اب کیا چاہیے تجھے دنیا میں حسنین جمال؟
اگلے دو دن لاہور میں تھا، خاور سے گاڑی مانگی اور مختلف کام دھندوں کی نیت سے نکلا۔ ابھی پانچ منٹ نہیں ہوئے تھے کہ فون بجا، اٹھایا:
’جمال صاحب بات کر رہے ہیں؟‘
’جی‘
’آپ کے نام کا صحیح تلفظ کیا ہے؟ حسن جمال، حُسنین جمال یا حسنین جمال؟‘
کہا: ’حسنین جمال۔‘
اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بات کون صاحب کر رہے ہیں۔ پچھلے دن والا سارا معاملہ ایک دم بھولا ہوا تھا۔ موبائل پہ نمبر بھی گاڑی چلاتے ہوئے حسبِ عادت زیادہ غور سے نہیں دیکھا تھا۔ تھوڑا سنجیدگی سے پوچھا، کون صاحب بات کیجیے گا؟ جواب آیا: ’گلزار۔‘
او تیری خیر! اللہ اکبر، کہاں جاؤں؟ چھوٹے بھائی کی گاڑی مار دوں کہیں؟ روک لوں تو کیا بیچ سڑک روک لوں؟ سپیڈ آہستہ کروں تو پیچھے کیسے دیکھوں؟ سارا جسم تو کان بنا ہوا ہے اور کان خود سائیں سائیں کر رہے ہیں۔ زندگی میں ایسا کبھی ہوا ہی نہیں۔ کروں تو کیا کروں؟ گلزار، گلزار، گلزار ۔۔۔
آپ کسی پسندیدہ ترین شخصیت سے ملنے جاتے ہیں، وہ مل جاتا ہے تو آپ پہلے سے تیار ہوتے ہیں، آپ کے پاس بہت سے سوال ہوتے ہیں۔ وہ نہیں ملتا تو آپ مایوس ہو کے آ جاتے ہیں۔ لیکن ان دونوں مرحلوں میں بہرحال سرپرائز کا معاملہ نہیں ہوتا۔
یہاں تو مہا سرپرائز تھا۔ یار آپ سوچیں کہ آپ کی کوئی بڑی سے بڑی خواہش ہو اور ایک دم فون آئے اور پتہ لگے لو بھئی، ہو گئی پوری۔ نہیں، میں سمجھا نہیں پا رہا۔ آپ خود سمجھ لیں۔۔۔ بس ایک کیفیت تھی اور ایسی طاقتور جو کچھ بھی کروا دے۔ تو بھائی نے بیچ سڑک میں گاڑی آہستہ کی اور کونا پکڑنے لگا۔ اب ایک طرف کانوں میں گونج رہا ہے، گلزار بول رہا ہوں، گلزار بول رہا ہوں، دوسری طرف گاڑی لگانا ہے۔ بڑا مشکل کام بابا، ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سر آپ نے فون ہی کر دیا؟ مطلب میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘ سیدھی بات یہ ہے کہ بھیا لفظ ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ گلزار صاحب بولے ’میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو ای میل کروں، پھر میں نے سوچا کہ میں خود بات کرلوں۔ میں شکریہ کہنا چاہ رہا تھا تو میں نے خود ہی فون کر لیا۔‘
جاننا چاہیے کہ گلزار جس کا نام خود ایوارڈ ہے، جو خود اپنے آپ میں ایک سپریم برانڈ ہے، اسے کسی حسنین جمال کے لکھے کالم میں ایسا کیا پسند آ گیا جو وہ خود فون کر رہا ہے؟ یہی میں سوچ رہا تھا۔ قسم بہ خدا محاورہ سنا تھا کہ درخت جتنا پھل دار ہوتا ہے شاخیں اتنی جھکتی چلی جاتی ہیں، دیکھا پہلی مرتبہ۔ ایسی سادگی، ایسا اطمینان اور ایسا انکسار! وہ ایسے مزے سے بات کر رہے تھے کہ تھوڑی دیر میں دماغ بحالی کی طرف آنے لگا۔ اس بیچ انہوں نے کیا کہا، میں نے کیا سنا، کچھ یاد نہیں!
کسی نے بگ بینگ تھیوری میں ڈاکٹر شیلڈن کوپر کا فین مومنٹ دیکھا ہے؟ جب اس کے سامنے اس کا پسندیدہ کوئی سلیبرٹی آ جائے تو وہ کیسے ہکلاتا ہے اور کیسے آنکھیں دبا لیتا ہے، بس وہی سین پارٹ چل رہا تھا۔
کوئی بھی شریف آدمی کبھی اپنی تعریف لکھنا پسند نہیں کرتا، بندہ عجیب چول لگتا ہے۔ لیکن یہاں بات چیت لکھنی ہے تو بس تھوڑا برداشت کیجیے۔ کہنے لگے ’وہ جو آپ نے گانوں کے بیچ میں سے مصرعے چنے اور ان پر جو بات کی وہ بڑی زبردست تھی، وہ کیفیت کی بات تھی، اسے بہت عمدہ بیان کیا آپ نے۔ روانی تھی، کہنے کا سٹائل بہت نیچرل تھا، بہت ڈوب کے لکھا آپ نے اور سمجھ آتا ہے کہ آپ ہر ایک گانے کے موڈ میں بہے اور آپ نے بہت غور سے سنا۔‘
اب جیسے کسی بچے کے سامنے بیٹ مین اپنی گاڑی میں اچانک آ جائے اور بچہ اسے بتانا چاہے کہ میں نے ہزاروں بار آپ کی فلاں مووی دیکھی ہے۔ عین اسی لہجے میں بولا: ’گلزار صاحب آپ یقین کیجیے کہ ایک ایک گانا پتہ نہیں کتنی مرتبہ سنا ہے اور کس کس حال میں سنا ہے۔ پھر جن گانوں پر میں نے لکھا وہ تو ویسے بھی میرے فیورٹ تھے۔‘ یہاں وہ بول پڑے کہ ’جیسے آپ نے وہ لائن پکڑی، بیبا تیری یاد نہ ٹلے، وہ بہت عمدہ بیان کی آپ نے، یا میرا کچھ سامان پر جو بات کی۔‘
تو بس فقیر منہ کھولے باتیں سن رہا تھا اور ایک دیوتا جو اپنے مقام سے زمین پر اتر کے سامنے بیٹھا تھا، اس کے منہ سے نکلنے والا ہر جملہ جذب کر رہا تھا۔ ہونق پن کا یہ عالم تھا کہ اب سوچتا ہوں تو یہ تک نہیں پوچھا کہ گلزار صاحب کیا آپ کو دوبارہ اس نمبر پہ کبھی فون کر سکتا ہوں؟
خیر یہ پوچھا کہ ’آپ پچھلی مرتبہ آئے تھے تو نصیر احمد ناصر صاحب کے فیس بک پہ آپ کی تصویریں دیکھیں، اب پاکستان آنے کا پروگرام کب ہوگا؟‘ کہنے لگے: ’دعا کیجیے حالات کچھ بہتر ہو جائیں تو چکر لگاؤں۔ اب میں آؤں گا تو اسلام آباد بھی آؤں گا۔ آپ سے ملاقات بھی کروں گا۔‘ چیونٹی کے گھر بھگوان آئیں یا نہ آئیں اس کے لیے تو یہ خبر ہی عید تھی، سو تھی!
پھر نصیر احمد ناصر کا بتایا کہ ’صاحب پاکستان میں ان کی شاعری کا میں بہت بڑا فین ہوں۔ اب یہ اتنی بڑی بات ہے کہ آپ یقین کیجیے ایک دو مرتبہ نصیر صاحب نے کہیں لکھا بھی، میں نے پڑھا بھی، لیکن یقین نہیں آیا۔ نصیر صاحب بزرگ ہیں، شفیق ہیں، مہربان ہیں، ملاقاتیں ہیں، ان کی بہت سی نظمیں مجھے پسند بھی ہیں، لیکن گلزار صاحب ان کے فین ہوں؟ اور پھر انہوں نے کہا بھی ہو؟ بھئی واقعی ہیں! میں گواہ ہوں کہ انہوں نے یہ بات کہی اور دہرائی اور ان کی نظموں کی ڈھیر تعریف کی۔ تو میں بڑا شرمندہ ہوا کہ میں کیوں نہ اسی وقت نصیر احمد ناصر کے کہے پر یقین کر گیا؟ تو یہ بات ہوئی۔
پھر ان سے پوچھا کہ سر ای میل اگر آپ کا مل جائے تو ایک دو مضمون کسی زمانے میں لکھے تھے آپ ہی کے بارے میں، خدا جانے آپ تک پہنچے یا نہیں، وہ بھیج دوں گا۔ ایک وی لاگ کا پروگرام بھی ہے تو وہ بھی آپ کو اسی پہ روانہ کر دوں گا۔ ترنت ای میل دے دیا انہوں نے۔ ابے کہاں جاؤ گے حسنین جمال؟ مر جاؤ، زندہ رہو، مطلب گلزار صاحب سے دوبارہ رابطے کا ایک بہانہ بھی پیدا ہو گیا، سبحان اللہ۔
پھر انہیں بتایا کہ میرے ساتھ الٹا معاملہ ہوا ہے۔ دو شخصیتوں نے دماغ پر عجیب جادو کیا ہے۔ بچپن میں انتظار صاحب کو پڑھتا رہا، ان کا بہت اثر رہا۔ بڑا ہوا تو الٹ ہو گیا۔ گلزار دل کو لگ گیا۔ ایسا لگا کہ سب کچھ پلٹا دیا۔ تو وہ ہنسنے لگ گئے۔
اور یہ حقیقت ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ فلاں ملنگ پہ کسی بات کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے ایک چیخ ماری اور گر کے مر گیا، تو شاعری اور گلزار کے گانے بھائی پہ وہی اثر کر گئے۔
بہرحال استاد، پورے پانچ منٹ اور بائیس سیکنڈ بات ہوئی لیکن اس سے زیادہ کچھ یاد نہیں۔ کمزور دماغ کے ایک خود پسند کا بلاگ ختم ہوا چاہتا ہے لیکن وہ پانچ منٹ بائیس سیکنڈ؟ انہیں میرے بس میں ہو تو سیفٹی پن کے ساتھ سینے پہ ٹانک لوں یا کم از کم حنوط کرکے گھر کے دروازے پہ لٹکا دوں۔ ویسے کتبے پر بھی لکھوایا جا سکتا ہے، ’یہاں وہ سوتا ہے جسے گلزار نے فون کیا تھا۔‘