بارش اور سیلاب نے سیاحت کا رنگ دھندلا دیا

بارشیں تو روکی نہیں جا سکتیں اور نہ ہی ساون کا شیڈول ہمارے بس میں ہے، مگر ہم جون سے پہلے راستوں کی برف ہٹا کر سیاحت کا دورانیہ بڑھا سکتے ہیں۔

یکم اگست 2024 کو لاہور میں شدید بارش کے بعد ایک شخص سیلاب زدہ بس سٹیشن سے گزر رہا ہے (عارف علی/اے ایف پی)

پاکستان کی سالانہ سیاحت اس دن سے شروع ہو جاتی ہے جب سڑکوں سے گلیشیئر کے تودے ہٹا کر سیاحوں کو کاغان اور براستہ بابو سر ٹاپ شمال تک رسائی ملتی ہے۔

چونکہ قراقرم ہائی وے پر بشام اور کوہستان کی طرف سے گلگت بلتستان جانا طویل اور خطرناک ہو سکتا ہے لہٰذا سیاح مانسہرہ اور بالاکوٹ سے ہوتے ہوئے ناران اور پھر شمالی پاکستان جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

مگر افسوس ناران کا راستہ ہر سال جون کے تیسرے ہفتے کھلتا ہے اور بابو سر ٹاپ کی برفیلی رکاوٹیں جولائی کے پہلے ہفتے میں ہٹائی جاتی ہیں۔ 

اس طرح جون کے آخر میں شروع ہونے والی سیاحت جولائی کا پورا مہینہ عروج پر رہنے کے بعد اگست کے آغاز سے ہی ساون کی نذر ہو جاتی ہے۔ 

دیکھا جائے تو مئی اور جون میں انتظامیہ کی مبینہ کاہلی اور اگست میں بارشیں سیاحت کو نگل جاتی ہیں اور ستمبر بارشوں کے آفٹر شاکس یعنی لینڈ سلائیڈنگ کی نذر ہو جاتا ہے۔ 

ساون اور بارش ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہاڑ گرجے تو ساون ضرور برستا ہے، یعنی ہاڑ کے مہینے میں بادل کیٹ واک کرتے پھریں تو ساون جی بھر کر برستا ہے اور ہاڑ بانجھ گزرے تو بھی ساون خالی نہیں جاتا۔ 

ہر سال ساون ایک دو دن کے فرق سے جولائی اور اگست میں ہی آتا ہے اور پاکستان میں سیاحت بھی انہی مہینوں میں عروج پر ہوتی ہے، جب کاروباری حضرات صرف 90 دن کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور برف میں دب چکے بازاروں کو پھر سے آباد کر دیتے ہیں۔ 

  پاکستان قدرتی طور پر سیاحت کے لیے بہترین ہے اور فطرت اپنے دل کش حسن سمیت اس خطے پر مہربان ہے۔ 

ملکی سیاحت کا 98 فیصد دارومدار پہاڑی سلسلوں پر ہے، جہاں ناگن کی طرح ٹہلتے دریا، برف زار، آبشاریں، جھرنے، جھیلیں اور گلیشیئر سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں اور بے شمار بلند چوٹیاں تو بادلوں کو بھی شکست دیتی ہیں۔ 

لیکن ان مناظر اور مظاہر سے لطف اندوز ہونے کے لیے مناسب وقت کا انتخاب بہت اہم ہے۔ غلط وقت پر شمالی علاقوں کا رخ کریں تو کبھی لینڈ سلائیڈنگ راستہ روکتی ہے اور کبھی سیلاب تباہی سے دو چار کرتے ہیں۔ 

ہر سال اپریل اور مئی میں تیار ہونے والی سڑکیں بھی ساون بھادوں میں شکست و ریخت کا شکار ہو جاتی ہیں اور سیاحت کا مزہ کرکرا کر دیتی ہیں۔

بارشوں سے پیدا ہونے والے پہاڑی سیلاب سے بچنا ممکن ہی نہیں، اس لیے آپ سیاحت کے وقت کو موسم کے مطابق شیڈول کر سکتے ہیں۔ مئی، جون اور جولائی کی نسبت اگست اور ستمبر میں حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ 

چترال، سوات اور کیلاش کی صورت حال مختلف ہے۔ لواری ٹنل بننے کے بعد چترال کی سیاحت اب برف کی رکاوٹوں سے آزاد ہو کر  چھ سات ماہ پر محیط ہو چکی ہے۔

اس لیے وہاں سیاح سیلاب اور ساون سے پہلے جا سکتے ہیں۔ وادیِ سوات اور کالام کے برف زار بھی پانچ ماہ سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔ 

اگر زیر تجویز بابو سر ٹاپ کا ٹنل تعمیر کر دیا جائے تو یہاں بھی سیاحت آٹھ ماہ تک رواں رکھی جا سکتی ہے۔

30 جولائی، 2024 کو وادیِ منور سے آنے والا سیلابی ریلا مہانڈری پل کو بہا لے گیا جس سے کاغان اور مانسہرہ کا رابطہ منقطع ہو گیا اور ہزاروں سیاح پھنس گئے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی حال تمام پہاڑی دروں کا ہو چکا ہے۔ کچھ تو واقعات بھی ہو رہے ہیں اور کچھ سیاح سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز دیکھ کر سیاحت منسوخ کر چکے ہیں۔ 

سیاحوں کا خوف زدہ ہو جانا سیاحت کے ساتھ ساتھ ہل سٹیشنز پر موجود کاروباری طبقے کا بھی بھاری نقصان ہے۔ 

کچھ دور افتادہ وادیوں کے باسی، کبھی پورٹر بن کر اور کبھی گائیڈ کے طور پر سال بھر کا رزق انہیں تین مہینوں میں جمع کرتے ہیں لیکن سیلاب ان کی خواہشات پر پانی پھیر جاتا ہے۔ 

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک خاص علاقے کی تباہ کن صورت حال ان علاقوں کی سیاحت بھی برباد کر دیتی ہے جہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا ہوتا ہے۔ 

مثلاً  گلگت بلتستان، جہاں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا، مگر مہانڈری پل کی تباہی نے شمالی پاکستان کی رونق کو ویرانی میں بدل دیا اور وہ سیاح بھی واپس چلے گئے جو 15 روز کے لیے آئے تھے۔

بارشیں تو روکی نہیں جا سکتیں اور نہ ہی ساون کا شیڈول ہمارے بس میں ہے، مگر ہم جون سے پہلے راستوں کی برف ہٹا کر سیاحت کا دورانیہ بڑھا سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ