پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ فوج کے ساتھ ’بہترین‘ تعلقات نہ رکھنا ’احمقانہ‘ ہو گا۔
راول پنڈی کی اڈیالہ جیل سے خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے تحریری انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کے امریکہ کے خلاف کوئی منفی جذبات نہیں، جسے وہ 2022 میں اپنے عہدے سے بے دخل کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ تاہم واشنگٹن اس معاملے میں کسی بھی کردار سے انکار کرتا ہے۔
گذشتہ سال اگست میں بدعنوانی سے لے کر ریاستی راز افشا کرنے تک کے درجنوں الزامات کا سامنا کرنے والے عمران خان کو جیل میں ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔
اتوار کو روئٹرز پر شائع ہونے والے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور نجی شعبے میں فوج کے اہم کردار کو دیکھتے ہوئے ، یہ احمقانہ ہوگا کہ (فوج کے ساتھ) اس طرح کے تعلقات کو فروغ نہ دیا جائے۔ ہمیں اپنے جوانوں اور مسلح افواج پر فخر ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ان کی ’برطرفی کے بعد سے فوج کے خلاف ان کی تنقید کا مقصد شخصیات کو نشانہ بنانا تھا نہ کہ ایک ادارے کے طور پر فوج کو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فوجی قیادت کے غلط اندازوں کا مورد الزام پورے ادارے کو نہیں ٹھہرانا چاہیے۔‘
چند روز قبل بدھ کو عمران خان نے پیش کش کی تھی کہ اگر ’صاف اور شفاف‘ انتخابات ہوتے ہیں اور ان کے حامیوں کے خلاف ’جعلی‘ مقدمات واپس لیے جاتے ہیں تو وہ فوج کے ساتھ ’مشروط مذاکرات‘ کریں گے۔
عمران خان کے اس انٹرویو پر پاکستان فوج اور حکومت نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ تاہم ماضی میں دونوں ہی کئی بار ان کے دعوؤں کی تردید کر چکے ہیں۔
اپنے جوابات میں عمران خان نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ فوج کے ساتھ کیا بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
’فوج کے ساتھ کسی بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں‘
پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ میں اقتدار سے محروم ہونے والے عمران خان نے الزام عائد کیا کہ فوج ان کے خلاف سیاسی محرکات پر مبنی مقدمات کی حمایت کر رہی ہے۔ تاہم فوج اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں جیل سے رہا کیا جائے اور اقتدار میں واپس آنے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں تو فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی ایسے مذاکرات کے لیے تیار ہیں جس سے پاکستان کی سنگین صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے ساتھ اس طرح کے کوئی مذاکرات شروع کرنا بیکار ہیں کیونکہ اس حکومت کو عوامی حمایت حاصل نہیں۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت نے فروری میں ’چوری شدہ‘ انتخابات جیتے۔ تاہم الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا زیادہ نتیجہ خیز ہوگا جو اصل میں اقتدار کے مالک ہیں۔‘
عمران خان نے حکومت یا فوج کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیے کے خیال کو مسترد کردیا، بشرطیکہ وہ یہ تسلیم کریں کہ فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے اکثریت حاصل کی تھی۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ تھے۔