سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہفتے کو جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں مبینہ طور پر منشیات کے کاروبار میں ملوث ایک ملزم کی ضمانت پر رہائی سے متعلق درخواست اس بنیاد پر منظور کر لی کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو متعدد مقدمات میں ملزم ہونے کے باوجود اس سہولت سے نوازا گیا تھا۔
ملزم عبیداللہ کے وکیل نے مقدمے کی سماعتوں کے دوران دلائل دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف درج متعدد مقدمات کی موجودگی میں کئی کیسوں میں ضمانتوں کی منظوریوں کا حوالہ دیا اور اسی بنیاد پر اپنے مؤکل کی ضمانت کی منظوری کا مطالبہ کیا۔
عدالت عظمیٰ نے ملزم کی درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے ہفتے کو جاری کیے گئے فیصلے کو ’ناٹ فار رپورٹنگ‘ قرار دیا، جس سے مراد ہے کہ اس فیصلے یا مقدمے کو مستقبل میں نظیر یا مثال کے طور استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ملزم عبیداللہ کے خلاف 55 گرام آئس کی برآمدگی کے مقدمے کی سماعت کی تھی۔
ملزم کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کے مؤکل کسی مقدمے میں سزا یافتہ نہیں ہیں اور اس لیے ان کی ایک لاکھ روپے کے عوض ضمانت منظور کی جا سکتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا تھا کہ ’ملزم پر رپورٹ کے مطابق 14 مقدمات ہیں تو ان میں ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے؟ منشیات کا کاروبار کرنے سے ملزم ضمانت نہیں سزا کا حقدار ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید ریمارکس دیے تھے کہ ’منشیات معاشرے کے لیے ناسور ہے جو تعلیمی اداروں میں بھی پھیل رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملزم کے وکیل غلام سجاد گوپانگ نے کہا تھا کہ ’آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت ان کے مؤکل عبید اللہ اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان برابر کے شہری ہیں۔
وکیل کے مطابق: ’عدالت نے عمران خان اور میرے مؤکل کو آرٹیکل 25 کے تحت ایک نگاہ سے دیکھنا ہے۔‘
جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا تھا کہ سابق وزیراعظم کا اس ضمانت کی درخواست سے کیا تعلق ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ عمران خان کے خلاف 200 سے زیادہ مقدمات موجود ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں انہیں ضمانت دی، جب کہ وہ اس مقدمے میں ضمانت کے وقت چار مقدمات میں سزا یافتہ تھے۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ’ایک ملزم کو 200 مقدمات میں ضمانت مل سکتی ہے تو ان کے مؤکل کے خلاف محض 14 مقدمات ہیں، وہ بھی ان مقدمات کے باوجود ضمانت کے حقدار ہیں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’عمران خان اور ان کے مؤکل پر بنے مقدمات کی نوعیت مختلف ہے، عمران خان کے کیس کا ان مقدمات سے کیا موازنہ ہے؟‘
جس پر وکیل غلام سجاد کا مؤقف تھا کہ ’عمران خان پر دہشت گردی کے مقدمات ہیں۔ انہیں جیل میں دیسی مٹن اور مرغا کھانے کو ملتا ہے، جب کہ میرے مؤکل کو ایسی کوئی سہولت جیل میں دستیاب نہیں اور وہ تو ضمانت کے زیادہ حقدار ہیں۔‘
وکیل کے دلائل سن کر جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا: ’چلیں دیکھ لیتے ہیں، آپ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیں۔‘
بعد ازاں عدالت نے ملزم عبید اللہ کی ضمانت درخواست منظور کر لی۔