پنجاب میں تقریباً 6000 سکولوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ

پنجاب حکومت نے 13000 سرکاری تعلیمی اداروں کو نجی و سرکاری شراکت سے چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

24 مئی 2024 کی اس تصویر میں تعلیمی اداروں میں گرمی کی چھٹیاں شروع ہونے سے ایک روز قبل لاہور کے ایک سرکاری سکول کے کلاس روم کا منظر (سید مرتضیٰ/ اے ایف پی)

پنجاب کے محکمہ سکول ایجوکیشن نے صوبے کے تقریباً چھ ہزار سرکاری تعلیمی اداروں کو  دوبارہ سے منظم کرنے کی غرض سے نجی اور سرکاری شراکت سے چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر برائے سکول ایجوکیشن پنجاب کے مطابق ان تعلیمی اداروں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (پیف) کے ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں چلایا جائے گا۔

دوسری جانب پنجاب ٹیچرز یونین صوبائی حکومت کے اس فیصلے سے خوش نہیں اور سرکاری سکولوں میں خالی آسامیوں کو پر کر کے انہیں چلانے کو بہتر حل قرار دیتی ہے۔ 

منیجنگ ڈائریکٹر پیف شاہد فرید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’ان سکولوں کے حوالے سے عوام میں غلط فہمی تھی کہ ہم انہیں پرائیویٹ کرنے جا رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم انہیں آؤٹ سورس کر رہے ہیں اور یہ سکول پنجاب حکومت کے کنٹرول اور ملکیت میں ہی رہیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان سکولوں میں پڑھنے والے کسی بچے کو کوئی فیس نہیں دینا ہو گی جو حکومت ہی ادا کرے گی۔

شاہد فرید نے بتایا کہ پنجاب حکومت کا منصوبہ 13000 سکولوں کو آؤٹ سورس کرنا ہے لیکن پہلے مرحلے میں ہم 5863 سکول آؤٹ سورس کر رہے ہیں۔

 اساتذہ کا ردعمل 

پنجاب ٹیچرز یونین کے صدر کاشف شہزاد چوہدری نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم تو بہت عرصے سے اس معاملے پر شور مچا رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ نان پرفارمنگ سکولز ہیں جب کہ ہمارا مؤقف ہے کہ ان اداروں میں اساتذہ ہی نہیں ہیں تو کیا پرفارم کریں گے؟‘

کاشف کے مطابق جن اضلاع میں یہ سکولز موجود ہیں وہاں کی ضلعی انتظامیہ ارد گرد کے سکولوں سے اساتذہ لے کر ان کو چلا رہی ہے۔ بجائے انہیں شاباش دینے کے حکومت کہتی ہے کہ یہ سکول کارکردگی نہیں دکھا رہے۔

’ہمارا اختلاف یہ ہی ہے کہ پنجاب میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی ایک لاکھ 24 ہزار آسامیاں خالی ہیں، جن پر گذشتہ چھ، سات سالوں سے بھرتی نہیں ہوئی۔ ان میں سے 74 ہزار آسامیاں پرائمری ٹیچرز کی ہیں جن کی براہ راست بھرتی سکیل 14 میں حکومت نے کرنا ہے۔‘

پبلک سکول ری آرگنائزیشن پروگرام

اس حوالے سے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر احسان الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ حکومت پنجاب کا منصوبہ ہے جس کا مقصد تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے۔ اس منصوبے کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ ماڈل کے تحت چلانے کی ذمہ داری پنجاب ایجوکیشن فاؤبڈیشن کو سونپی گئی ہے اور اس پروگرام کے تحت ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باعزت روزگار بھی ملے گا۔‘

’ان میں  567 ایسے سکولز ہیں جن میں کوئی بچہ موجود نہیں ہے۔ دو ہزار 555 سکولز ایسے ہیں جہاں صرف ایک استاد ہے، جب کہ دو ہزار 741 سکولز میں اساتذہ کی تعداد دو ہے اور بچے 50۔‘

احسان کے مطابق پنجاب میں سرکاری سکولوں کی تعداد 42 ہزار ہے جبکہ ان میں سے پبلک سکول ری آرگنائزیشن پروگرام کے سکول 5863 ہیں جن میں طلبہ کی تعداد تین لاکھ 29 ہزار 594 ہے، جب کہ یہاں کیپیسٹی 10 سے 12 لاکھ طالب علموں کی ہے۔

احسان نے مزید بتایا کہ پہلے مرحلے میں شامل کیے گئے سکول کافی عرصے سے یوں ہی پڑے ہیں اور کسی بھی حکومت نے انہیں فنکشنل بنانے سے متعلق کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

احسان کے مطابق ’آؤٹ سورس کیے جانے والے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو نوکریوں سے برخاست نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کو ان کے گھر کے نزدیک ترین سرکاری سکولوں میں ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس میں پڑھے لکھے نوجواں لڑکے لڑکیاں، پرائیویٹ چینز، این جی اوز اور انفرادی حیثیت میں بھی درخواستیں آئیں تھیں جن میں سے میرٹ پر چنے جانے والوں کو یہ سکول الاٹ ہوں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ جن کو یہ سکولز ملیں گے انہیں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن فی بچہ  فنڈز مہیا کرے گی۔

’فرض کریں ایک سکول کسی انفرادی حیثیت میں درخواست دینے والے کو دیا گیا ہے تو اس فرد کو سکول میں تین یا چار سو بچے داخل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پنجاب حکومت اسے فی بچہ 1250 روپے فنڈ دے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان سکولوں میں ایک کلاس روم میں 35 سے زیادہ بچے نہیں ہوں گے، جن کے لیے کم از کم ایک استاد ہو گا۔ پرائمری سکول کی اگر پانچ کلاسسز ہیں تو ان کے لیے پانچ اساتذہ رکھنا ہوں گے۔‘

احسان کے مطابق  ’سکول کے ارد گرد کے علاقوں کے بچوں کو سکول میں لانا ان کے لیے اساتذہ بھرتی کرنا، بچوں کے لیے فرنیچر، عمارت کی مرمت یعنی ہر چیز سکول لینے والے کی ذمہ داری ہو گی۔‘

پنجاب اجوکیشن فاؤنڈیشن

ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا قیام پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ایکٹ 1991 کے تحت ایک خودمختار قانونی ادارہ کے طور پر عمل میں آیا تھا تاکہ غیر تجارتی/ غیر منافع بخش بنیادوں پر تعلیم کی حوصلہ افزائی اور فروغ دیا جا سکے۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی تنظیم نو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ایکٹ-XII 2004 کے تحت تعلیم کے فروغ کے لیے کی گئی ہے، خاص طور پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے غریبوں کو تعلیم کی فراہمی میں نجی شعبے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی اور معاونت۔

شاہد فرید کے مطابق سکولوں کی آؤٹ سورسنگ نئی بات نہیں ہے بلکہ  پیف نے 2016۔17 میں بھی تعلیمی ادارے آؤٹ سورس کیے تھے اور اسی ماڈل کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت مزید سکول آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل