امریکی محکمہ انصاف نے منگل کو ایک بیان میں بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایران سے مبینہ روابط رکھنے والے ایک پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کو کسی امریکی سیاست دان یا سرکاری عہدے دار کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں امریکی حکام سے رابطے میں ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے منگل کو رات گئے ایک بیان میں کہا: ’ہم نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں۔ ہم امریکی حکام سے رابطے میں ہیں اور مزید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے امریکی حکام کے بیان نوٹ کیے ہیں۔ اس معاملے کی ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ اپنا باضابطہ ردعمل دینے سے پہلے ہمیں اس شخص کے پس منظر اور ماضی کے بارے میں بھی یقینی طور پر جاننے کی ضرورت ہے۔‘
امریکی محکمہ انصاف کی چھ اگست کو جاری پریس ریلیز کے مطابق بروکلین میں 46 سالہ آصف مرچنٹ عرف آصف رضا مرچنٹ پر امریکی سر زمین پر ایک سیاست دان یا امریکی سرکاری عہدے دار کو قتل کرنے کی مبینہ منصوبہ بندی کے تحت کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی بھی حملے سے پہلے منصوبے کو ناکام بنا دیا اور اب آصف مرچنٹ وفاقی تحویل میں ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے منظر عام پر لایا گیا کیس امریکی عوامی شخصیات کو نشانہ بنانے کی غرض سے بیرون ملک سے شروع ہونے والی قتل کی تازہ ترین سازش ہے، اس سے دو سال قبل بھی حکام نے ٹرمپ انتظامیہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے خلاف ایک علیحدہ منصوبے کو ناکام بنایا تھا۔
عدالتی دستاویزات میں کسی بھی ممکنہ ہدف کی نشاندہی نہیں کی گئی، تاہم امریکی حکام نے گذشتہ ماہ اعتراف کیا تھا کہ ایران کی جانب سے سابق صدر اور رپبلکن صدارتی ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی کو لاحق خطرے کے پیش نظر پنسلوانیا میں ہونے والی ریلی سے چند روز قبل اضافی سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔ اس ریلی میں ٹرمپ ایک مسلح شخص کی گولی سے زخمی ہوئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قانون نافذ کرنے والے ایک عہدیدار نے کہا کہ 13 جولائی کو پنسلوانیا کے ایک 20 سالہ شخص کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کا ایران کی دھمکی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور آصف مرچنٹ کی گرفتاری کا ٹرمپ کے قتل کی کوشش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ کے حلف نامے سے پتہ چلتا ہے کہ آصف مرچنٹ کے ذہن میں ٹرمپ جیسے موجودہ یا سابق اعلیٰ سطح کے عہدے دار تھے۔
امریکی حکام کئی سالوں سے خبردار کرتے رہے ہیں کہ ایران 2020 میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ اس حملے کا حکم ٹرمپ نے اس وقت دیا تھا جب وہ صدر تھے۔ اس کے بعد سے امریکی حکومت نے ٹرمپ انتظامیہ کے متعدد عہدیداروں کی سکیورٹی کے لیے رقم ادا کی اور 2022 میں محکمہ انصاف نے بولٹن کے قتل کی ناکام سازش میں ملوث ایک ایرانی کارکن پر فرد جرم عائد کی تھی۔
آصف مرچنٹ کی گرفتاری کے حوالے سے اٹارنی جنرل میرک بی گارلینڈ نے کہا کہ ’محکمہ انصاف کئی سالوں سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر امریکی سرکاری عہدے داروں کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی ایران کی بے رحمانہ اور غیر متزلزل کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جارحانہ انداز میں کام کر رہا ہے۔
’محکمہ انصاف امریکی شہریوں کے خلاف ایران کی خطرناک سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنے والوں کو روکنے اور ان کا احتساب کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گا اور ایک آمرانہ حکومت کی جانب سے امریکی سرکاری عہدے داروں کو نشانہ بنانے اور امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کرے گا۔‘
امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا کہ ’کرائے پر قتل کی یہ خطرناک سازش آج کی شکایت میں مبینہ طور پر ایک پاکستانی شہری نے تیار کی تھی، جس کا ایران سے قریبی تعلق ہے۔
’کسی سرکاری عہدے دار یا کسی امریکی شہری کو قتل کرنے کی غیر ملکی ہدایت پر منصوبہ بندی، ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اس کا سامنا ایف بی آئی کی پوری طاقت اور وسائل سے کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کرین جین پیئر نے منگل کو ایک پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ ’سابق سیاست دانوں کے خلاف ایرانی خطرات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم اسے قومی اور داخلی سلامتی کا اولین ترجیح کا کیس سمجھتے ہیں۔ ہم نے ایک جامع ردعمل تیار کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لیے اپنی حکومت کی اعلی ٰ ترین سطحوں پر کئی بار ملاقاتیں کی ہیں۔‘
آصف مرچنٹ پر الزامات کی تفصیل
شکایت میں شامل الزامات اور متعلقہ عوامی طور پر دائر کردہ عدالتی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ نے امریکی سرزمین پر ایک سیاست دان یا امریکی حکومت کے عہدیدار کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
امریکی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تفصیل کے مطابق: ’اپریل 2024 میں، ایران میں وقت گزارنے کے بعد، آصف مرچنٹ پاکستان سے امریکہ پہنچے اور ایک ایسے شخص سے رابطہ کیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اس منصوبے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ اس شخص نے آصف مرچنٹ کے طرز عمل کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی اور ایک خفیہ ذریعہ (Confidential Source) یعنی سی ایس بن گیا۔
’جون کے اوائل میں آصف مرچنٹ نے نیو یارک میں سی ایس سے ملاقات کی اور قتل کی سازش کی وضاحت کی۔ آصف مرچنٹ نے سی ایس کو بتایا کہ ان کے پاس سی ایس کے لیے جو کام تھا، وہ ایک بار کا کام نہیں تھا اور جاری رہے گا۔ اس کے بعد مرچنٹ نے اپنے ہاتھ سے ’فنگر گن‘ کا اشارہ کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قتل کرنے کے متعلق کام تھا۔
’آصف مرچنٹ نے مزید کہا کہ مطلوبہ متاثرین کو ’یہاں نشانہ بنایا جائے گا‘ یعنی امریکہ میں۔ انہوں نے سی ایس کو ہدایت کی کہ وہ ان افراد کے ساتھ ملاقاتوں کا انتظام کرے جن کی خدمات آصف مرچنٹ ان کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے حاصل کرسکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آصف مرچنٹ نے وضاحت کی کہ ان کے منصوبے میں متعدد مجرمانہ منصوبے شامل تھے: (1) ہدف کے گھر سے دستاویزات یا یو ایس بی ڈرائیوز چوری کرنا، (2) احتجاج کی منصوبہ بندی کرنا اور (3) کسی سیاست دان یا سرکاری افسر کا قتل۔
’اس ملاقات میں آصف مرچنٹ نے ممکنہ قتل کے منظرنامے کی منصوبہ بندی شروع کی اور سی ایس سے سوال کیا کہ وہ مختلف حالات میں کسی ہدف کو کیسے ماریں گے۔ خاص طور پر، آصف مرچنٹ نے سی ایس سے یہ وضاحت کرنے کے لیے کہا کہ مختلف منظرناموں میں ایک ہدف کیسے مرے گا۔ انہوں نے سی ایس کو بتایا کہ اس شخص کے ’چاروں طرف سکیورٹی ہوگی۔‘
’آصف مرچنٹ نے کہا کہ یہ قتل ان کے امریکہ چھوڑنے کے بعد ہوگا اور وہ کوڈ ورڈز کا استعمال کرتے ہوئے بیرون ملک سے سی ایس کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ سی ایس نے پوچھا کہ کیا مرچنٹ نے اپنے ملک میں نامعلوم ’پارٹی‘ سے بات کی تھی، جس کے ساتھ وہ کام کر رہے تھے۔ آصف مرچنٹ نے جواب دیا کہ انہوں نے بات کی ہے اور ملک والی پارٹی نے ان سے کہا کہ وہ منصوبے کو ’حتمی شکل‘ دیں اور امریکہ چھوڑ دیں۔
’جون کے وسط میں آصف مرچنٹ نے مبینہ قاتلوں سے ملاقات کی، جو درحقیقت نیو یارک میں امریکی قانون نافذ کرنے والے خفیہ افسران (یو سی) تھے۔ انہوں نے یوسیز کو کہا کہ وہ ان سے تین کام لینا چاہتے ہیں: دستاویزات کی چوری، سیاسی ریلیوں میں احتجاج کا انتظام کرنا اور ان کے لیے ایک ’سیاسی شخص‘ کو قتل کرنا۔ آصف مرچنٹ نے بتایا کہ ان کے امریکہ چھوڑنے کے بعد اگست کے آخری ہفتے یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں کس کو قتل کرنا ہے، اس بارے میں ہٹ مین کو ہدایات ملیں گی۔
’اس کے بعد آصف مرچنٹ نے قتل کی پیشگی ادائیگی کے طور پر یو سیز کو پیسے دینے کے لیے پانچ ہزار ڈالر نقد حاصل کرنے کے ذرائع کا انتظام کرنا شروع کیا، جو بالآخر انہیں بیرون ملک ایک فرد کی مدد سے ملے۔
’21 جون کو آصف مرچنٹ نے نیویارک میں یو سیز سے ملاقات کی اور انہیں پانچ ہزار ڈالر ایڈوانس ادا کیے۔
’آصف کی جانب سے یو سیز کو پانچ ہزار ڈالر ادا کرنے کے بعد ایک یو سی نے کہا کہ ’اب ہم پابند ہیں‘ جس پر مرچنٹ نے ’ہاں‘ میں جواب دیا۔ اس کے بعد یو سی نے کہا کہ ’اب ہم جانتے ہیں کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ ہم یہ کریں گے، جس پر مرچنٹ نے جواب دیا ’ہاں، بالکل۔‘
’مرچنٹ نے اس کے بعد جہاز کے انتظامات کیے اور جمعہ 12 جولائی 2024 کو امریکہ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔ 12 جولائی کو قانون نافذ کرنے والے ایجنٹوں نے مرچنٹ کو ملک چھوڑنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا تھا۔
’آصف مرچنٹ نے بتایا کہ ان کی ایک بیوی اور بچے ایران میں ہیں اور ایک بیوی اور بچے پاکستان میں ہیں۔ ایف بی آئی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘
پریس ریلیز کے مطابق نیو یارک کے مشرقی ضلع کے لیے اسسٹنٹ امریکی اٹارنی سارہ کے ونک، گلبرٹ رین اور ڈگلس پراوڈا اور نیشنل سکیورٹی ڈویژن کے انسداد دہشت گردی سیکشن کے ٹرائل اٹارنی ڈیوڈ سمتھ اور جوشوا شیمپین اس مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں۔
مجرمانہ شکایت محض ایک الزام ہے اور تمام مدعا علیہان کو اس وقت تک بے گناہ سمجھا جاتا ہے جب تک کہ عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے۔