عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے معاشی اثرات سے بحالی کے بعد دنیا کے نوجوانوں میں بےروزگاری کی مجموعی شرح گذشتہ 15 سال کے مقابلے میں کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔
تاہم ایشیا، الکاہل خطے اور عرب ممالک میں صورت حال اس سے برعکس ہے جہاں خاص طور پر بیروزگار خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی ادارہ محنت نے بتایا ہے کہ 2023 میں بیروزگار نوجوانوں کی تعداد میں 13 فیصد کمی آئی جو قبل از وبا دور سے بہتر صورت حال ہے جبکہ رواں برس اور 2025 کے دوران اس میں مزید کمی متوقع ہے۔ تاہم، ادارے کا کہنا ہے کہ وبا کے نقصان دہ معاشی اثرات سے ہر جگہ یکساں طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
آئی ایل او میں تجزیہ روزگار اور عوامی پالیسیوں سے متعلق شعبے کی سربراہ سارا ایلڈر نے کہا ہے کہ مشرقی ایشیا کے ممالک میں بیروزگاری 4.3 فیصد جبکہ عرب ممالک اور جنوبی مشرقی ایشیا و الکاہل کے نوجوانوں میں ایک ایک فیصد بڑھ گئی ہے۔
مواقع کا فقدان
یو این نیوز کی ایک خبر کے مطابق گذشتہ برس دنیا کے 20 فیصد سے زیادہ لوگ روزگار، تعلیم یا تربیت سے محروم تھے۔ اس صورت حال کو آئی ایل او کی اصطلاح میں 'نیٹ' (NEETs) کہا جاتا ہے۔
سارہ ایلڈر کا کہنا ہے کہ نوجوان خواتین کو تعلیم جاری رکھنے یا نوکری حاصل کرنے کے لیے مرودں سے دو گنا زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں اور اس وقت دنیا میں دو چوتھائی نوجوان خواتین کا شمار 'نیٹ' میں ہوتا ہے۔
نوجوانوں کے لیے اچھی اجرت والی باوقار اور محفوظ نوکریوں کا حصول پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور گذشتہ سال تقریباً چھ کروڑ 50 لاکھ نوجوان نوکریوں سے محروم تھے۔
طبقاتی اور صنفی تفریق
سارہ ایلڈر کے مطابق بہت سے نوجوان محنت کشوں کو اب بھی سماجی تحفظ میسر نہیں ہے اور وہ ایسی عارضی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں جن کے ذریعے وہ بالغ خودمختار فرد کی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ کم آمدنی والے ممالک میں ایسے صرف 25 فیصد محنت کشوں کو باقاعدہ اور محفوظ روزگار ملنے کا امکان ہوتا ہے جبکہ دولت مند ممالک میں یہ شرح 75 فیصد ہے۔
نوجوانوں پر روزگار کی تلاش کا شدید دباو رہتا ہے۔ دو چوتھائی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی نوکریاں ختم ہونے کے خدشے سے دوچار رہتے ہیں حالانکہ 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والے نوجوان (جنریشن زی) اب تک کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی نسل شمار ہوتی ہے۔
اچھی اجرت والا باوقار روزگار نوجوانوں کے لیے بہتر مستقبل کی کنجی اور سماجی انصاف، شمولیت اور امن کی ضمانت ہوتا ہے۔ نوجوانوں کے روشن مستقبل کے لیے مواقع تخلیق کرنے میں اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی ایل او کے مطابق محنت کی منڈی میں صنفی تعصب کے باعث مردوں کو خواتین سے زیادہ مواقع اور فوائد ملتے ہیں۔ ہر جگہ نوجوان محنت کشوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومتوں سے اس صورت حال میں تبدیلی لانے اور کام کے مواقع بڑھانے کے لیے کہیں۔
ادارے نے بتایا ہے کہ 2023 میں نوجوان مردوں اور خواتین میں بیروزگاری کی شرح تقریباً برابر (بالترتیب 13 اور 12.9 فیصد) تھی جبکہ وبا سے پہلے برسوں میں کام کے قابل مردوں میں بیروزگاری کی شرح خواتین کے مقابلے میں زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ گذشتہ برس دنیا بھر میں 'نیٹ' درجے میں آنے والی نوجوان خواتین کی تعداد نوجوان مردوں کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ (بالترتیب 28.1 اور 13.1 فیصد) دیکھی گئی۔
نوجوانوں کا 'غیریقینی' مستقبل
آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگبو نے کہا ہے کہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع انتہائی غیرمساوی ہیں۔ محدود وسائل کے حامل اور اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوانوں بالخصوص خواتین کو روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تعلیم اور باوقار روزگار کے لیے مساوی مواقع کی غیرموجودگی میں لاکھوں نوجوان اپنا مستقبل بہتر بنانے کے مواقع سے محروم ہو رہے ہیں۔
جب دنیا میں لاکھوں نوجوانوں کے پاس باوقار روزگار تک رسائی نہ ہو، وہ خود کو غیرمحفوظ تصور کریں اور اپنے لیے بہتر زندگی تخلیق نہ کر سکیں تو ایسے میں مستحکم مستقبل کا خواب تعبیر نہیں پا سکتا۔
روزگار اور طویل مدتی رحجانات
نوجوانوں کے لیے روزگار کے حوالے سے رواں سال آئی ایل او کی رپورٹ میں درج ذیل طویل مدتی رحجانات کی نشاندہی کی گئی ہے:
خاص طور پر متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں ایسی نوکریوں کی تعداد بہت کم ہے جن میں بلند درجہ تکنیکی صلاحتیں درکار ہوتی ہیں۔
نوجوانوں کے لیے 'جدید' خدمات اور صنعتی نوکریوں کی تعداد میں محدود پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے۔
صلاحیتوں میں ترقی کی رفتار کو ماحول دوست اور ڈیجیٹل صلاحیتوں کی بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق رکھنا تعلیمی ناموزونیت کو کم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔