’میں عید سے قبل گھر کی صفائی میں مصروف تھی کہ پیٹ کے نچلے حصے میں شدید درد اٹھا۔
’والدہ نے ڈانٹا کہ منع کیا تھا کہ بھاری بھرکم سامان نہ کھسکاؤ، ہو گیا نا درد، جاؤ گرم کپڑے سے سکائی کرو، بہتر ہو جائے گا، لیکن تکلیف تھی کہ کم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ دو دن تک کبھی کم اور کبھی زیادہ درد کی شکایت کے بعد ڈاکٹر کے پاس گئی۔
’محلے کی ڈاکٹر نے تکلیف دیکھ کر فوراً الٹرا ساؤنڈ کروانے اور کسی ماہرِ نسواں (گائناکولوجسٹ) کے پاس جانے کا کہا۔ میرے پیریڈ ٹھیک تھے، مگر الٹرا ساؤنڈ رپورٹ آنے پر ڈاکٹر کا خدشہ درست نکلا اور اووریز کے کینسر کی شناخت ہوئی۔‘
17 سال قبل کی تکلیف دہ یاد کو سنانے والی 42 سالہ بتول (تبدیل شدہ نام) کے چہرے پر آج بھی درد کی شدت محسوس کی جا سکتی ہے۔ 2008 میں 25 سالہ بتول کے جسم میں اووری کے کینسر کی شناخت ہوئی تھی۔
بتول کی والدہ سکینہ بتاتی ہیں کہ ’الٹرا ساؤنڈ رپورٹ کے مطابق بتول کی ایک اووری متاثر تھی اور ٹیومر مزید پھیلنا شروع ہوا تھا۔ سکینہ بہت پریشان تھیں کیونکہ بتول کا نکاح ہو چکا تھا اور رخصتی کی تیاریاں جاری تھیں۔ سب سے بڑی الجھن یہ تھی کہ سسرال کو بتائیں یا نہیں۔
’بتول کے شوہر کو ڈاکٹر نے پوری بات سمجھائی کہ ہم بائیوپسی کر چکے ہیں۔ اب سرجری کی طرف جائیں گے اور یہ بھی کہ ابھی بتول کم عمر ہے۔ ہم سسٹ کو نکالنے اور کم از کم ایک اووری بچانے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ آگے چل کر صحت مند زندگی گزار سکیں۔
’سکینہ آج پرسکون انداز میں یہ سب بتا رہی تھیں کیونکہ وہ مریم اور عبداللہ کی نانی ہیں۔ بروقت تشخیص اور علاج سے بتول دو بچوں کی ماں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بتول سرجری کے مرحلے سے گزریں اور ان کا سسٹ اور ایک اووری نکال دی گئی۔ سکینہ ڈاکٹر کی تعریف کرتی ہیں کہ انہوں نے بروقت مرض کی شناخت کی اور ماہر نسواں سے رابطہ کرنے کا کہا۔ اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ ایک کے سوا باقی سسٹس میں کینسر نہیں تھا۔
اسما حبیب کی 24 سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ جب وہ پہلی بار حاملہ ہوئیں تو سارا خاندان خوش تھا کہ وہ والدین کی اکلوتی اولاد اور ان کے میاں آصف الیاس بھی اکلوتے بیٹے تھے، لیکن ابتدائی ماہ میں ہی ان کا حمل ضائع ہو گیا۔ ڈی این سی ہونے کے بعد ڈاکٹر نے آصف کو آگاہ کیا کہ اسما کی اووری میں سسٹ ہے۔
بائیوپسی ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ Malignant Tumor ہے، یعنی ان کی اووریز میں پلنے والا ٹیومر کینسر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اولاد کی آمد کی خوشی میں محو پورا خاندان اب اسما کی صحت کے لیے فکر مند تھا۔ آصف کہتے ہیں کہ پھر ہم نے وہ تمام طریقے علاج اپنائے جس سے مرض کا علاج ممکن تھا۔
ضیا الدین میڈیکل، لیاقت اور پھر انڈس ہسپتال میں علاج کروایا۔ کیمو ابھی شروع ہونی ہی تھی کہ مرض کی شدت کی وجہ سے اسما کا انتقال ہو گیا۔ آصف انڈس ہسپتال کو سلام پیش کرتے ہیں کہ وہاں کے ڈاکٹر کینسر کے مریضوں کا بہترین علاج کر رہے ہیں۔
ایک دوسرے کیس میں عائشہ خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کی اووری میں کوئی سسٹ ہے، لیکن پہلی بیٹی کی پیدائش پر سیزیریئن کے دوران اس سسٹ کو نکال دیا گیا تھا۔ بروقت شناخت کی وجہ سے وہ اووری کے کینسر سے بچ گئیں لیکن وہ آج بھی چار سے پانچ سال بعد اپنا معائنہ ضرور کرواتی ہیں۔
اووری کے کینسر کی ابتدائی علامات کیا ہیں؟
کراچی کے سرکاری ہسپتال سوبھراج کی سینیئر گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر حوریہ موفیدہ نے چند نکات واضح کیے ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
۔ پیریڈز نہ ہونا یا ان میں کوئی گربڑ اوورین کینسر کی علامت نہیں۔ کسی کو جلدی اور کسی کو دیر سے پیریڈز ہو سکتے ہیں۔
۔ اس کی سادہ ترین علامات وزن کا مسلسل بڑھنا، خاص کر پیٹ کا بڑھنا اورکبھی وزن کا گرنا یا پیٹ کا باہر نکلنا ہے۔
۔ قبض اور پیشاب میں جلن ہو سکتی ہے۔
۔ ہاضمہ خراب ہوتا ہے، گیس کی شکایت، بھوک کا کم لگنا۔ تھوڑا سا کھانا لیکن پیٹ بھر جانا۔
۔ پیریڈز کے پیٹرن میں ہر دفعہ تبدیلی۔
۔ الٹرا ساؤنڈ میں یوٹرس اور اووری کی جسامت میں فرق۔
۔ مینو پاز (سن یاس) 55 سال کی عمر تک نہ ہو۔
مرض کی شناخت اور علاج
ڈاکٹر حوریہ موفیدہ نے بتایا: ’جب مریض شدید تکلیف کے ساتھ ہم تک پہنچتے ہیں تو تب ہی جانچ کی جاتی ہے کہ سرجری کس طرح ہو گی اور کیمو تھراپی کس لحاظ سے ہو گی؟ ٹیومر کس نوعیت اور سٹیج کا ہے؟ سب دیکھا جاتا ہے، اس کے بعد ہی ڈاکٹر فیصلہ کرتا ہے۔
’پچھلے دنوں ایک نوجوان اور غیر شادی شدہ مریضہ آئی تھیں، ہم نے ان کی سرجری کی لیکن وہ چھ ماہ بعد انتقال کر گئیں، کیونکہ انہیں آخری سٹیج کا کینسر تھا۔ یہ مرض کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی قید نہیں۔ بچیوں میں الگ، نو عمر اور عمر رسیدہ خواتین میں الگ الگ طرح کے ٹیومر سامنے آ رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر ثمینہ سوبھراج ہسپتال میں ہی ڈی ایم ایچ کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ اووری کے کینسر کی شناخت ہمیشہ دیر سے ہوتی ہے کیونکہ مرض پھیلتا جاتا ہے لیکن کوئی پیچیدگی ظاہر نہیں ہوتی اور آخری سٹیج پر پہنچ کر تکلیف دینا شروع کرتا ہےاور مریض کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی کو بانجھ پن کے علاج کے دوران معلوم ہو تا ہے تو کسی کو مرض پھیلنے کے بعد۔ سوچیں ہماری خواتین اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتیں۔ جن کا کبھی طبّی معائنہ ہوا ہی نہ ہو، ان کا مرض کیسے معلوم ہو گا؟‘
اووری کا کینسر: آگاہی کیوں ضروری ہے؟
اسما کے شوہر آصف سمجھتے ہیں کہ ’کینسر لفظ ہی ایسا ہے کہ اس سے صرف خطرہ ہی محسوس ہوتا ہے، اس لیے ہر طرح کے کینسر سے آگاہی بہت ضروری ہے، لیکن جب خواتین کے حوالے سے بات کی جائے، جیسے اووری کا کینسر، چھاتی کا کینسر (بریسٹ کینسر) اور یوٹرس کینسر وغیرہ، تو اس پر بات کرنا لازمی سی بات ہے۔
’ہماری مائیں بہنیں اس لیے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں کیونکہ وہ مرض سے آگاہ ہی نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ مرض اتنا پھیل جاتا ہے کہ مریض موت کے منہ میں چلا جائے۔ پیچیدہ امراض کے بارے میں پہلے پہل بات کرتے ہوئے یا علاج کرواتے ہوئے وہ جھجکتی ہیں۔ پھر خاندان کے مرد حضرات بھی ہچکچا رہے ہوتے ہیں۔ مجھے خود اس مرض کے بارے میں آگاہی نہیں تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مجھے اس مرض کے بارے میں آگاہی ہوتی تو مزید بہتر علاج کروا سکتا تھا۔
’مجھے اس مرض کے بارے میں اس وقت پتا چلا جب اسما کی ڈی این سی ہوئی اور پھر بائیوپسی ہوئی۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ Malignant Tumour یعنی کینسر ہے۔ ہم نے اسما کو علاج کے بارے میں مکمل آگاہی دی تاکہ وہ خود بھی کوشش کرے۔
آغا خان ہسپتال میں ماہرِ نسواں اونکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر روزیلا خان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے جسم میں کئی طرح کی باڈیز بنتی اور ختم ہوتی رہتی ہیں، لیکن کچھ زخم کینسر میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جو Malignant Tumour کہلاتے ہیں۔ یہ اکثر بڑی عمر کی خواتین میں دیکھا گیا ہے۔ یہ مرض کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ کم عمر میں ٹیومر Benign یعنی بغیر جڑوں کے بغیر گٹھلی ہوتی ہے، لیکن 20 فیصد کیسز میں یہ Malignant بھی ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 20 فیصد کیسز میں جینیاتی یا خاندان میں چلنے والا اووری کا کینسر بھی وجہ ہو سکتا ہے۔
’اووری کے کینسر کی شناخت دیر سے ہونے کی وجہ سے یہ سٹیج 3 کے کینسر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور صرف 30 فیصد خواتین کی ہی جان بچائی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں سرجری کے بعد سروائیول ریٹ بھی صرف پانچ سال تک ہے، جبکہ ابتدا میں اگر یہ مرض پکڑ لیا جائے تو 90 فیصد خواتین مرنے سے بچ سکتی ہیں۔ یہ فرق ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم آگاہی کو فروغ دیں تاکہ بروقت خواتین اور نوجوان بچیوں میں مرض کی شناخت ممکن ہو سکے۔‘
ڈاکٹر حوریہ نے اووری کے کینسر کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ ’جن خاندانوں میں کینسر رہا ہو، وہاں بچیوں میں تکلیف کے ساتھ پریڈز ہونا اہم علامت ہے۔ اس تکلیف اور درد کی مسلسل شکایت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے بچیوں کا معائنہ کرواتے رہنے چاہیے۔ سال میں الٹرا ساؤنڈ، سی ٹی سکین یعنی سکریننگ ہونا بہت ضروری ہے، مگرہمارے ہاں آبادی کا زیادہ دباؤ ہونے کی وجہ سے یہ کام ممکن نہیں رہا۔
’کم از کم جن خاندانوں میں یہ مرض پنپتا ہے، ان کی جانچ پڑتال لازمی ہونی چاہیے۔ Malignant Tumor میں سکریننگ ہی سب سے اہم ہے۔ جب رپورٹ آتی تو ہی ہم اپنا کام کرتے ہیں کہ سسٹ یا گٹھلی کینسر زدہ تو نہیں؟‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’میلگنیسی یعنی کینسر زدہ گٹھلی ہر کوئی مینیج نہیں کر سکتا۔ اگر اسے پوری توجہ کے ساتھ ٹریٹ نہ کیا جائے تو مریضہ کا زخم پھیلتا جائے گا، لہٰذا اچھے اور مستند گائناکالوجسٹ کے ساتھ آنکولوجی کا ماہر بھی ہونا چاہیے۔‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ماہرِ نسواں ڈاکٹر نبیہہ طارق نے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’زیادہ تر علامات کی وجہ سے لوگ گیسٹرو انٹرولوجسٹ کے پاس جاتے ہیں، پھر وہاں سے وہ گائنی کے پاس آتے ہیں۔
’وجہ وہی کہ اس مرض کی ابتدا میں ظاہری علامات نہیں ملتیں۔ نوجوان بچیوں کے والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے خاندان میں کون کون سے کینسر کے مریض پائے گئے ہیں تاکہ وہ اپنی نوجوان بچیوں کو اس مرض سے خود بھی آگاہ کریں اور بچیاں بھی جانیں اور خاص کر بریسٹ کینسر کے سلسلے میں اپنا خود معائنہ کرتی رہیں۔ الٹرا ساؤنڈ سے ہی اس کی ابتدائی شناخت ممکن ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’اس مرض میں پیریڈ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور وہ اپنے وقت پر آتے رہتے ہیں۔ مسئلہ جب پیدا ہوتا ہے جب ٹیومر یا زخم کی وجہ سے اووری پھٹ جائے یا مڑ جائے۔ جس کی وجہ سے شدید درد کی شکایت عام ہے۔ ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک میں بھی اس مرض کے بارے میں دیر سے معلوم ہوتا ہے۔ مسئلہ وہی ہے کہ 80، 90 فیصد اووری کے کینسر میں اموات کی بنیادی وجہ بروقت شناخت نہ ہونا ہے۔‘
الخدمت ہسپتال کی ڈاکٹر نیلوفر ایاز کہتی ہیں کہ ’ہماری خواتین ڈاکٹر تک اس وقت ہی پہنچتی ہیں جب یہ کینسر اووریز سے نکل کر پیٹ کے اوپری حصوں تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ مریضہ کی کھانے پینے سے رغبت ختم ہو جاتی ہے اور مسلسل ایک بے چینی کی کیفیت رہتی ہے۔
’اگر پیٹ پھولے اور ہاضمے کی خرابی ہو تو ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں۔ علامات کو نظر انداز کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے اور تیزابیت اور بد ہضمی کے لیے خود سے ادویات لینا نہ شروع کر دیں۔ خواتین اس مرض کے ساتھ عام فزیشن کے پاس چلی جاتی ہیں اور کافی عرصے تک السر کا علاج ہوتا رہتا ہے اور کبھی معدے کی سرجری کر دی جاتی ہے، جس سے اووری کے کینسر کو پکڑنے میں مزید دیر ہو جاتی ہے۔‘
پاکستان میں اووری کے کینسر بڑھنے کی شرح
ڈاکٹر روزیلا خان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں اووری کے کینسر سے متعلق کوئی ادارہ اعداد و شمار جمع نہیں کر رہا، لیکن پوری دنیا میں ایک سال میں 44 ہزار کیسز سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر خواتین سٹیج 3 کے کیسز کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اگر یہ ہم تک نہ پہنچیں تو اگلے پانچ سالوں میں ان مریضوں کی اموات یقینی ہے۔‘
ڈاکٹر حوریہ کے مطابق ہسپتال کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں درمیانی عمر کی خواتین میں اووری کینسر زیادہ سامنے آیا ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ماہر نسواں ڈاکٹر نبیہہ طارق کے مطابق: ’دنیا بھر میں اووری کا کینسر خواتین میں پانچواں تیزی سے پھیلتا ہوا کینسر ہے اور اس کی وجہ سے ہونے والی اموات میں اس کا نمبر چوتھا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ڈیٹا ہسپتالوں اور لیب سے آ رہا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مرض پاکستانی خواتین کے 10 بڑے کینسرز میں سے ایک ہے۔‘
اووری کینسر سے جڑا ’جَرم سیل‘ ٹیومر
آنکولوجسٹ ڈاکٹر روزیلا خان کے خیال میں سکین اور دیگر لیب ٹیسٹ کے ذریعے اس مرض کو پکڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک خاص پہلو پر بات کی کہ ’آج کل ہمارے سامنے جرم سیل کینسر بھی کم عمر لڑکیوں میں نظر آ رہا ہے یعنی Sperm And Egg Cell میں کینسر نمو پا رہا ہے۔
’سوچیں ایمبریو سیل ہی میں نہیں رہیں گے تو ان کی تولیدی صحت کیا رہے گی۔ پھر ’جرم سیل‘ ٹیومر کو پکڑنا بھی مشکل ہے، کیونکہ اس کی علامات بھی اوری کے کینسر سے ملتی جلتی ہیں۔ جرم سیل کینسر میں کیمو تھراپی کے ساتھ Fertility Sparing Surgery کی جاتی ہے۔‘
ان کے مشاہدے کے مطابق بہت سے گائنی سرجری کے ماہر بھی یہاں نامکمل سرجری کر دیتے ہیں کیونکہ وہ گائنی کے ساتھ آنکولوجسٹ نہیں ہوتے، لہذا مرض پھر نمو پا جاتا ہے۔ ’ڈاکٹر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بڑی عمر کی خواتین کے کینسر ٹشوز میں واضح فرق ہوتا ہے اور نو عمر بچیوں کا علاج بھی مختلف انداز سے کیا جائے گا۔‘
ڈاکٹر روزیلا نے زور دیا کہ ڈاکٹر جب مریضہ میں کینسر کی علامات دیکھیں، تو انہیں وقت ضائع کیے بغیر مستند ڈاکٹروں کے پاس بھیجیں، تاکہ مریضہ کا فوری علاج شروع کیا جائے۔ ’مریض کا وقت ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کے پاس جانے میں ضائع نہ ہو۔ یہ مریضہ کی بقا کے لیے ضروری ہے۔‘
ڈاکٹر روزیلا نے زور دیا کہ پاکستان میں 45 سال سے 55 سال کی خواتین میں اووری کا کینسر عام ہو رہا ہے، اس لیے اس عمر کی خواتین اپنا طبی معائنہ کروائیں۔
کیا بچاؤ ممکن ہے؟
ڈاکٹر نیلوفر کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 87 میں سے ایک خاتون اس مرض کا شکار ہو رہی ہیں۔ علاج کے بعد بھی مریضہ کے جینے کی شرح صرف تین سال ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ تشخیص کے لیے MRI, US, CT اور PET Scan ضرور کروائیں۔ ’اپنی بیٹیوں کو راغب کریں کہ وہ حمل اور بچوں کی پیدائش کے علاوہ بھی اپنے کچھ ٹیسٹ کروائیں، جیسے سروائیکل کینسر کے لیے HPV Cervical Pap Smear ٹیسٹ کروائیں۔
’جن خاندانوں میں بریسٹ، اووری اور کولون کینسر کے مریض ہوں، وہاں والدین اپنے بچیوں کی صحت اور امراض کی جانچ پڑتال پر توجہ دیں کیونکہ موروثی امراض ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہونے کا زیادہ رجحان عام ہے، جس پر توجہ سے بچاؤ ممکن ہے۔
ڈاکٹر روزیلا کے مطابق: ’اس کینسر کی واضح علامات نہیں لہٰذا خواتین جو پہلے ہی اپنی صحت کو نظر انداز کرنے کی عادی ہوتی ہیں، ان کا مرض آخری سٹیج تک پہنچ جاتا ہے، لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ خود ماہرِ نسواں اور سرجن، کینسر کی اس صنف میں تربیت حاصل کریں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’آغا خان ہسپتال، شوکت خانم ہسپتال اور کچھ نجی ہسپتالوں نے اس حوالے سے کام کیا ہے اور تربیت لینے کے بعد سندھ اور بلوچستان کے ڈاکٹروں کو تربیت اور آگاہی فراہم کی ہے۔ پوری دنیا میں آج ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے انسانی کینسر پر کام ہو رہا ہے۔ ہمیں بھی اس سمت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ انسانی زندگی بچائی جا سکے۔‘
ڈاکٹر حوریہ بھی کہتی ہیں کہ ’یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کی بچیوں کا وزن زیادہ نہ ہو، پریڈز وقت پر ہوں، کھانے پینے کا بھی دھیان رکھیں، بیکری کی اشیا جیسے سموسے، برگر، پیٹیز اور بسکٹ وغیرہ نہ کھائیں۔ فاسٹ فوڈ اور رات دیر تک جاگنا، بیچ رات میں کھانا اور اس طرح کے سب اشتہارات اور ان پر چلنے والی ڈیلز، ہماری نوجوان بچیوں کی صحت تباہ کر رہی ہیں۔ ہمارا طرزِ زندگی ہی ان بیماریوں کی جڑ ہے۔‘
وزارتِ صحت کا موقف
وفاقی وزارت صحت کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بریسٹ کینسر کی شرح خواتین میں 38 فیصد ہے یعنی نو میں سے ایک خاتون اس مرض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، لیکن اب اووری کے کینسر کے کیسز بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ابھی اسے خواتین میں اموات کی دوسری بڑی وجہ قرار دینا قبل از وقت ہو گا۔ ہر مرض کی طرح اس میں بھی آگاہی ضروری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اووری کا کینسر اس لیے بھی بڑھ رہا ہے کہ اس کی تشخیص دیر سے ہو رہی ہے۔ حکومت پاکستان ہمیشہ عوامی آگاہی اور بہتر علاج تک رسائی کی سہولت پر یقین رکھتی ہے۔ خاص کر دیہی زندگی میں جہاں غربت کی وجہ سے پہلے ہی علاج مشکل تر ہے۔ لہذا جتنے زیادہ ٹیسٹ ہوں گے، اتنا ہی جلد مرض کو پکڑا جا سکے گا۔ آگاہی اور اس مرض پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ خواتین اور ان کے خاندان کو سمجھنا چاہیے کہ بر وقت تشخیص کے لیے لیب ٹیسٹ ضروری ہیں۔‘
پولی سسٹک اووریز اور اووریز کے کینسر میں کوئی تعلق ہے؟
ڈاکٹر حوریہ کہتی ہیں کہ ’پولی سسٹک اووریز ایک الگ مرض ہے۔ ہر ماہ خواتین کے جسم میں آٹھ سے دس انڈے (Eggs) بنتے ہیں۔ ایک میچور ہوتا ہے اور باقی سب پھٹ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عام سائیکل کی پہچان ہے۔ کوئی شادی شدہ ہے اور ایگ میچور ہو کر پھٹتا نہیں بلکہ ایمبریو کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور حمل ٹھہر جاتا ہے جبکہ پولی سسٹک اووریزی میں ایگ فولیکل بنتے ہیں لیکن وہ پھٹتے نہیں بلکہ اووری میں ہی جمع ہوتے رہتے ہیں، جس سے اووری کا کام متاثر ہوتا ہے۔
’پولی سسٹ الگ چیز ہے اور اووری کا کیسز کا باعث نہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک سسٹ ہی ہے جو کہ گانٹھ بن گئی ہے۔ سونولوجسٹ بھی الٹرا ساؤنڈ میں لکھ دیتے ہیں کہ یہ سسٹ ہے۔ مریضہ پریشان ہوتی ہے۔ یہاں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پولی سسٹک کا مسئلہ ہارمون اوپر نیچے ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، وہ سسٹ نہیں۔‘
کیا اووری کے کینسر کے بعد بھی بچوں کی پیدائش ممکن ہے؟
ڈاکٹر حوریہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ مریضہ کی ایک اووری بچا لی جائے۔ خاص کر مریضہ کم عمر ہو یا اولاد نہ ہو تو، لیکن اگر نکالے بغیر چارہ نہ ہو تو ہمیں پھر نکالنا ہی پڑتا ہے کیونکہ زندگی اولین شرط ہے۔‘
انہوں نے اہم بات بتائی کہ ’اب یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ فرٹیلیٹی سینٹر میں Egg Collection ہو رہی ہے، یعنی آئی وی ایف کے ذریعے بچوں کی پیدائش بھی ممکن ہو سکتی ہے۔
’اگر ابتدائی سٹیج کا کینسر ہو تو ہم سوبھراج ہسپتال میں ہی آپریشن کر لیتے ہیں، لیکن اگر ہمیں پیچیدگی نظر آئے تو کسی سینیئر کے پاس بھیجتے ہیں۔ ایک ہی ہدایت ہے کہ مریض مستند ڈاکٹر کے پاس جائیں اور ڈاکٹر سے کہنا ہے کہ اگر کیس کو سمجھ نہیں پا رہے تو کسی سینیئر کو بھیج دیں، مریضہ کا وقت ضائع نہ کریں۔
’ہم امید کرتے ہیں کہ آگاہی وقت کی ضرورت ہے۔ اس کا علاج مہنگا ضرور ہے، لیکن سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ انڈس اور آغا خان ہسپتال بھی موجود ہیں۔‘
اووری کے کینسر کے باعث جان سے جانے والی اسما کے شوہر آصف کہتے ہیں: ’میں سوچتا تھا کہ اگر کسی مزدور کی بیوی یا عام خاتون کو یہ مرض لاحق ہو جائے تو وہ کہاں کہاں دھکے کھائے گا۔ مرد بھی اپنی عزت نفس بچا رہا ہے اور عورت بھی چھپتی پھر رہی ہے۔ اس وقت ہی کینسر ہسپتال، کرن اور انڈس ہسپتالوں کے لیے میرے دل سے دعا نکلی تھی۔ اللہ تعالی ان لوگوں کو جزائے خیر دے۔‘