عروج ایک فری لانسر ہیں۔ وہ فائیور اور اپ ورک پر لوگو ڈیزائن کرتی ہیں اور اسی سے اپنے گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔
چار چھوٹے بہن بھائیوں اور والدین کی ذمہ داری ان پر ہے۔ ان کے کئی ڈیزائنز (گِگ) کی ریٹنگ فور سٹار تھی، لیکن جب سے پاکستان میں انٹرنیٹ سست روی کا شکار ہوا ہے وہ کلائنٹس کو وقت پر کام مکمل کر کے نہیں دے پا رہیں۔
کلائنٹس ان کے خلاف شکایت کرنے لگے ہیں جس سے ان کے ڈیزائنز (گِگ) کی ریٹنگ کم ہو گئی ہے اور اسی طرح ان کی ان کی آمدن کم ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’فائیور نے ریٹنگز کم ہونے کے خدشے کی وجہ سے پاکستانیوں کی گگز کو غیر فعال کیا اور آپشن دیا کہ اگر آپ اسے فعال کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
’گِگز کا غیر فعال رہنے کا مطلب ہے کہ آمدن بالکل بند ہو جائے گی جو میں افورڈ نہیں کر سکتی، کیونکہ مجھے بجلی، گیس کے بل دینا ہیں، چھوٹے بہن بھائیوں کی سکول فیس ادا کرنا ہے اور والدین کی ادوایات کا بندوبست کرنا ہے۔‘
عروج کے مطابق اگر کچھ دن مزید انٹرنیٹ یونہی سست روی کا شکار رہا تو ان کی کئی سالوں کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔
’ایک گِگ کو اچھی ریٹنگ پر لانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور خراب کرنے میں چند منٹ درکار ہیں۔
’کلائنٹس منفی تاثرات دینے لگے ہیں جس سے کام تقریباً ٹھپ ہو گیا ہے، لیکن سرکار کو شاید اس کا اندازہ نہیں۔
’حکومت ہمیں نوکری نہیں دے سکتی تو کم ازکم ہماری لگی بندھی روزی پر لات تو نہ مارے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم ملک میں آئی ٹی انقلاب لانے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن میں ان کے دعوؤں کو اس وقت مانوں گی جب انٹرنیٹ سروس کو فوری بحال کریں اور مجھ سمیت لاکھوں فری لانسرز کو ہونے والے نقصان کا مداوا کریں۔‘
شہزاد جمیل ایک یوٹیوبر ہیں۔ انٹرنیٹ سروس متاثر ہونے سے ان کے ویوز بہت کم ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ روز مواد بنا کر ڈال رہے ہیں جس پر مستقل خرچہ ہو رہا ہے لیکن آمدن بہت کم ہو گئی ہے۔
’مواد ڈالنا بھی ضروری ہے۔ اگر چند دن مواد نہ ڈالیں تو یوٹیوب چینل کو پیچھے کر دیتا ہے جس سے نقصان ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں انٹرنیٹ کا مسئلہ یونہی چلتا رہا تو مجھے یوٹیوب چینل بند کرنا پڑے گا۔‘
لاہور کے عمر صفدر امریکہ اور کینیڈا میں آن لائن ٹرک ڈسپیچ کا کام کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے سے ان کا ادارہ کمپنیوں اور ڈرائیورز سے رابطہ نہیں کر پا رہا، واٹس ایپ بھی نہیں چل رہا، جس کی وجہ سے ٹرک وقت پر سامان ڈیلیور نہیں کر سکے۔ کچھ کلائنٹس نے ساتھ دوبارہ کام کرنے سے معذرت کر لی ہے۔
’وہ انتہائی مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان میں آئے دن انٹرنیٹ کا مسئلہ رہتا ہے۔ میں اب سنجیدگی سے سوچنے لگا ہوں کہ اپنا آفس دبئی یا برطانیہ منتقل کر لوں تاکہ کاروبار متاثر نہ ہو۔‘
پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کے صدر طفیل احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی فری لانسنگ انڈسٹری ہے۔
’تقریباً 20 لاکھ سے زیادہ لوگ اس شعبے سے جڑے ہیں اور تقریباً 35 کروڑ ڈالرز سے زیادہ ملک میں فری لانسنگ کے ذریعے آتے ہیں، لیکن انٹرنیٹ میں مسلسل خلل کی وجہ سے ہم روزانہ بزنس کھو رہے ہیں۔
’سب سے تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ یہ بھی نہیں بتایا جارہا کہ کب تک یہ مسئلہ حل ہو گا۔
’بعض لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس طرح کے مسائل مستقبل میں بھی آتے رہیں گے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انٹرنیٹ سروس میں خلل آنے سے تقریباً 30 کروڑ ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے۔ ان میں صرف فری لانسرز نہیں بلکہ آئی ٹی سے متعلقہ دیگر شعبے بھی شامل ہیں۔‘
پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ ایسوسی ایشن (پاشا) کے وائس چیئرمین خرم راحت کے مطابق ’پچھلے سال پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ 2.5 ارب ڈالر سے بڑھ کر 3.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’لیکن بار بار انٹرنیٹ سروس متاثر ہونے سے ایکسپورٹ میں مزید اضافہ ممکن نہیں ہو سکے گا اور آئی ٹی ایکسپورٹ کو 25 ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ اصل نقصان پاکستان کے امیج کا ہو رہا ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں۔
’ہم کئی سالوں سے ملک کا امیج بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان حالات میں یہ کوششیں رائیگاں جائیں گی۔
’فری لانسر ایک لیپ ٹاپ اور ایک بیگ لے کر کسی بھی ملک جا کر کام کر سکتا ہے۔ اب تو ترقی یافتہ ممالک فری لانسرز کو آسان شرائط پر شہریت بھی دے رہے ہیں۔ حکومت کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔‘
وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین شہزاد ارشد کے مطابق انٹرنیٹ کی رفتار تقریباً 30 سے 40 فیصد رہ گئی ہے، جس کی ممکنہ وجہ فائر وال کی تنصیب ہے، جس نے انٹرنیٹ سے جڑے ہر کام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
’اگر سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے تو اس سے متعلق وقت سے پہلے آگاہ کیا جانا چاہیے تھا اور متبادل راستہ دیا جانا چاہیے تھا۔‘
حکومت کا موقف ہے کہ براڈ بینڈ اور وائی فائی پر انٹرنیٹ چل رہا ہے۔ اصل مسئلہ موبائل فون آپریٹر کو آ رہا ہے جو جلد حل ہو جائے گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے دو ہفتوں میں مسئلہ حل کرنے کا کہا ہے۔ ادھر لاہور ہائی کورٹ میں انٹرنیٹ سروس کے حوالے سے درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔
تاہم وزرات آئی ٹی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ سرکار کا غیر سنجیدہ رویہ بڑا مسئلہ ہے۔
اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہوتا تو شاید وزیر آئی ٹی مستعفی ہو جاتیں۔ سرکار سے گزارش ہے کہ وہ فوری انٹرنیٹ بحال کرے تاکہ عام پاکستانی کی مشکلات کم ہو سکیں۔