برطانیہ میں فسادات: مساجد پر حملوں کا خدشہ، سکیورٹی سخت

برطانوی مسلمانوں کے مطابق اسلامی مراکز پر حملوں کے خدشے کے پیش نظر ہفتے کے روز مزید مظاہروں سے قبل مساجد کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔

برطانیہ کے شمال مشرقی شہر سنڈرلینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے شہر میں چاقو حملے میں تین نو عمر لڑکیوں کی اموات کے بعد شہر میں ہونے والے مظاہروں پر قابو پانے میں پولیس کا ’سخت اور مسلسل تشدد‘ کا سامنا ہے، جبکہ برطانوی مسلمانوں نے پرتشدد واقعات میں مساجد کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ سنڈرلینڈ میں جمعے کی شام شروع ہونے والے فسادات میں اب تک کئی افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

جمعے کی شام مشتعل مظاہرین نے مساجد کو اس وقت نشانہ بنایا جب انٹرنیٹ پر یہ بے بنیاد افواہیں پھیلی کہ پیر کے روز شمال مغربی انگلینڈ میں چاقو سے حملے میں تین نو عمر لڑکیوں کو قتل کرنے والا نوعمر شخص مسلمان تھا۔

ان افواہوں کے بعد برطانیہ کے شمال مشرقی شہر سنڈرلینڈ میں جمعے کی شام فسادات پھوٹ پڑے۔

 جس کے بعد برطانوی مسلمانوں کے رہنماؤں نے ان مظاہروں  کی وجہ سے اسلامی مراکز پر حملوں کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے ہفتے کے روز مزید مظاہروں کی منصوبہ بندی سے قبل اسلامی مراکز کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔

نارتھمبریا پولیس کی چیف سپرنٹنڈنٹ ہیلینا بیرن نے بتایا کہ ’آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی ’انتہائی قابل مذمت‘ بدامنی کے بعد تین پولیس اہلکاروں کو ہسپتال جا کر علاج کروانے کی ضرورت درپیش رہی۔‘

 انہوں نے مزید کہا کہ ’دو افسر ہفتے کی صبح تک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔‘

نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے نشر کی جانے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے سنڈرلینڈ کے شہر کے مرکز میں پولیس پر حملہ کیا اور کم از کم ایک گاڑی اور پولیس آفس کے ساتھ والی ایک عمارت کو آگ لگا دی۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی دیگر تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نقاب پوش نوجوان اینٹیں اور دیگر اشیا پھینک رہے ہیں جبکہ پٹاخے بھی چلائے گئے۔

بیرن نے کہا: ’جمعے کی شام سنڈرلینڈ میں ہم نے جو افسوس ناک مناظر دیکھے ہیں وہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بدنظمی، تشدد اور نقصان‘ کو ’برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’گرفتار کیے گئے آٹھ افراد کے علاوہ کسی اور ذمہ دار کی شناخت کے لیے مکمل تحقیقات جاری ہے۔‘

پیر کو چاقو سے کیے گئے حملے کے بعد برطانیہ کے کئی قصبوں اور شہروں میں دو راتوں تک جاری رہنے والی بدامنی کے بعد پولیس نے رواں ہفتے کے آخر میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں اور دیگر مظاہروں کی منصوبہ بندی کے پیش نظر ملک بھر میں تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

لندن میٹروپولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ہفتے کو فلسطینیوں کے حق میں اور تارکین وطن مخالف مظاہروں سے نمٹنے کے لیے ’مناسب اور خطرے کو مد نظر رکھتے ہوئے‘ منصوبہ موجود ہے۔

ویسٹ منسٹر میں بدھ کی رات  ریلی کے پرتشدد ہو جانے پر پولیس نے 111 افراد کو گرفتار کر لیا۔

جمعرات کو ملک بھر میں رات کو امن کے بعد سنڈرلینڈ میں جمعے کی شام ہونے والی بدامنی آنے والے دنوں کے حالات کی جانب اشارہ ہے۔

بدامنی کے واقعات پر ردعمل میں وزیر داخلہ یویٹ کوپر نے عزم ظاہر کیا کہ ’فسادیوں کو تشدد اور غنڈہ گردی کی قیمت چکانی پڑے گی۔‘

 انہوں نے پولیس کو سخت ترین کارروائی کرنے اور قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنے کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کی مکمل حمایت کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ برطانیہ کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل مرسی سائیڈ پولیس نے کہا کہ ’لیورپول سٹی سینٹر اور اس کے ارد گرد اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے تاکہ وہاں بدنظمی یا جرائم کی روک تھام میں مدد مل سکے۔ شام کو ایک مسجد کے قریب معمولی جھڑپ ہوئی تاہم اس کے علاوہ امن رہا۔‘

برطانوی شہر لیورپول سمندر کے کنارے پر ساؤتھ پورٹ کے قریب واقع ہے جہاں پیر کو ٹیلر سوئفٹ تھیم پر مبنی ڈانس پارٹی میں بچوں کو نشانہ بنانے کے بعد کی جانے والی ہنگامہ آرائی کا ذمہ دار انتہائی دائیں بازو کے عناصر کو ٹھہرایا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ میں پیدا ہونے والے 17 سالہ مشتبہ شخص ایکسل روڈاکوبانا کے بارے میں آن لائن پھیلائی گئی غلط معلومات نے بدامنی کو ہوا دی۔‘

ایکسل کو چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں قتل اور اقدام قتل کے الزامات کا سامنا ہے۔ حملے میں پانچ بچے اور دو بالغ افراد شدید زخمی ہوئے۔

پولیس نے کہا ہے کہ ’اس معاملے کا تعلق دہشت گردی سے نہیں سمجھا جا رہا لیکن پولیس نے اس کے محرکات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔‘

اس سانحے پر غصہ برطانوی سیاست میں دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے امیگریشن مخالف جذبات کے ساتھ جڑا ہوا ہے جسے کھلے عام اسلام مخالف انتہائی دائیں بازو کی شخصیات نے آگے بڑھایا ہے۔

برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے ’بدمعاشوں‘ پر ’نفرت کے بیج بونے‘ کے لیے قوم کے غم کو ’ہائی جیک‘ کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جو بھی پرتشدد کارروائیاں کرے گا اسے ’قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ