برطانیہ میں فیک نیوز پھیلانے والے ملزم فرحان سے کیا معلومات ملیں؟

ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کے بقول، ’ملزم فرحان آصف کے خلاف سائبر دہشت گردی کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔‘

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے اہلکار 22 اگست 2024 کو مبینہ طور پر سائبر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار فرحان آصف کو لاہور کی ایک عدالت میں پیش کرنے کے لیے لا رہے ہیں۔ برطانیہ میں فسادات کو ہوا دینے والی اپنی ویب سائٹ پر مبینہ طور پر غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں فرحان آصف کو سائبر دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے (عارف علی/ اے ایف پی)

برطانیہ میں مبینہ طور پر فیک نیوز کی وجہ سے ہونے والے حالیہ پرتشدد ہنگاموں کے حوالے سے منگل کو لاہور پولیس نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے فرحان آصف نامی شخص کو حراست میں لیا تھا جس سے مزید تفتیش وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کا سائبر کرائم ونگ کر رہا ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے ملزم فرحان آصف کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ملزم کے خلاف 2017 میں بھی لین دین کا ایک مقدمہ درج ہے، جس میں پولیس نے اسے گرفتار کیا لیکن وہ رقم ادا کرنے کے بعد رہا ہو گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ملزم کا سارا ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے، جس میں بینک اکاؤنٹس، سوشل میڈیا اکاؤنٹس، اور سفری معلومات بھی معلوم کر لی گئی ہیں۔ ان کے ملک سے صرف ایک بار باہر جانے کا ریکارڈ مل سکا ہے۔

ابتدائی معلومات میں کیا پتہ چلا؟

ابتدائی تحقیقات کے بعد ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ نے فرحان آصف کے خلاف مقدمہ درج بھی درج کر لیا۔ مقدمہ پیکا ایکٹ کی دفعہ 9 اور 10 اے کے تحت درج کیا گیا۔

یہ مقدمہ سائبر کرائم کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ دوران تفتیش ملزم فرحان آصف نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔

ملزم نے ایکس اکاؤنٹ پر انگلینڈ میں چاقو زنی واقعے کی تصاویر شئیر کیں اورایکس اکاؤنٹ ہینڈلر نے ویب سائٹ پر آرٹیکل بھی پوسٹ کیا۔

اس آرٹیکل میں 17 سالہ علی ال شکاتی کو چاقوزنی واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ آرٹیکل میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ گرفتار ہونے والا مسلمان ہے اور حملہ آور کو برطانیہ میں پناہ گزین بھی بتایا جس سے سوشل میڈیا پر جھوٹے دعوے کی وجہ سے فسادات پھوٹ پڑے۔

ایکس اکاؤنٹ ہولڈر کی شناخت فرحان آصف کے نام سے ہوئی۔ فرحان آصف نے غیر ملکی چینل کو غلط معلومات دینے کا بھی اعتراف کیا معلومات میں ملزم نے الزام دیگر لوگوں پر عائد کرنے کی کوشش کی۔

دوران تفتیش ایکس اکاؤنٹ ملزم کا ہی ہونے کی تصدیق کی گئی، ملزم سے دو لیپ ٹاپ اور ایک موبائل فون برآمد کیا گیا ہے۔

ملزم نے تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ وہ ایک ویب ڈویلپر ہیں اور متنازع خبریں پھیلا کر پیسے کماتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں بچیوں کے مبینہ قاتل کی جھوٹی پوسٹ اور معلومات دیگر عالمی پلیٹ فارمز کو بھی شیئر کیں تاکہ الزام کسی اور پر آئے لیکن چینل تھری ناؤ کے علاوہ کسی نے اس کو شائع نہیں کیا۔

فرحان آصف کے خلاف مدعی تاجر، حافظ بلال نے انڈپینڈنٹ اردو کو ان کی شخصیت کے حوالے سے بتایا کہ، ’وہ ایک جھگڑالو شخص ہیں اور پیسوں کے لین دین میں بھی کردار کے اچھے نہیں ہیں۔‘

ملزم کو حراست میں لیے جانے پر پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

لیکن سائبر کرائم کے ماہر قانون، فیصل باجوہ ایڈووکیٹ کے بقول، ’جب تک کسی ملزم کے خلاف کوئی شکایت کنندہ نہ ہو، اس کے خلاف مقامی طور پر موثر کارروائی کی قانون میں اجازت نہیں۔‘

’فرحان آصف کا عملی صحافت سے تعلق نہیں‘

ملزم فرحان آصف سے تفتیش کرنے والی ٹیم سے ملنے والی معلومات کے مطابق، 31 سالہ فرحان آصف لاہور کے پیدائشی ہیں اور انہوں نے بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

ان کی چھ سال پہلے شادی ہوئی، دو بیٹے ہیں، بیوی گھریلو خاتون ہیں۔

پیشے کے لحاظ سے وہ ایک ویب ڈویلپر ہیں، ان کا عملی صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔ لاہور یا پاکستان کی کسی صحافتی تنظیم کے رکن نہیں ہیں، نہ ہی بیشتر پیشہ ور صحافی اس واقعے سے قبل انہیں جانتے تھے۔

فرحان آصف نے زندگی میں صرف ایک بار 2023 میں بیرون ملک سفر کیا۔ تفتیشی ٹیم کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق، وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے صرف ایک بار سعودی عرب گئے۔

تفتیشی ٹیم کو ملنے والی معلومات کے مطابق، فرحان آصف کے دو بینک اکاؤنٹ جبکہ دو موبائل بینکنگ اکاؤنٹس ہیں۔ ان کا کسی دہشت گرد تنظیم سے ابھی تک کوئی رابطہ ثابت نہیں ہوسکا۔

تاہم ایک ایف آئی آر درج ہے، جو 2017 میں اعظم کلاتھ مارکیٹ کے تاجر حافظ بلال نے درج کرائی تھی، جس میں ڈھائی لاکھ روپے کے لین دین کا تنازع تھا۔

پولیس نے اس مقدمے میں انہیں گرفتار کیا اور رقم ادا کرنے پر اگلے دن عدالت نے رہا کر دیا۔ ان کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات میں بھی کوئی مشکوک ٹرانزیکشن نہیں ہوئی۔

تفتیشی ٹیم کے مطابق، ’ملزم مختلف ویب سائٹس کو بطور فری لانسر معلومات دے کر بھی پیسے کماتے ہیں، تاہم ان کے اپنے اکاؤنٹس بھی مختلف ناموں سے مونیٹائزڈ ہیں۔

’ملزم نے 20 جولائی کو برطانیہ میں تین بچیوں کے قتل کے حوالے سے پوسٹ کی۔ اس آرٹیکل کا کیپشن ’ساؤتھ پورٹ قتل کیس میں 17 سالہ علی ال شکاتی کی گرفتاری‘ تھا۔ ملزم کا جھوٹا الزام اور جعلی پوسٹ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی۔‘

تفتیشی ٹیم کے مطابق: ’فرحان آصف کی پوسٹ کی وجہ سے پرتشدد واقعات شروع ہوگئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملزم نے دوران تفتیش غلط معلومات بین الاقوامی میڈیا سے شیئر کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔

ٹیم کے مطابق: ’ملزم چاہتا تھا کہ جھوٹی خبر کا الزام دوسرے نیوز فورم پر لگے۔ اس نے مونیٹائزیشن کے ذریعے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھاری رقم کمانے کا اعتراف بھی کیا۔ ملزم محض سوشل میڈیا سے کمائی کے ذریعے جھوٹی اور بے بنیاد خبریں پھیلاتا رہا۔ اس کے یوٹیوب اور فیس بک آئی ڈی کو برطانیہ میں بلاک کر دیا گیا ہے۔‘

فرحان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے تاجر حافظ بلال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فرحان آصف کا کئی سال پہلے کپڑے کا کاروبار تھا۔ اس نے پانچ لاکھ روپے کا ادھار کپڑا لیا لیکن پیسے نہیں دیے۔ جب بھی پیسے مانگتے، لڑنے جھگڑنے کی کوشش کرتا۔ وہ ایک جھگڑالو آدمی ہے۔ ہمیں اس نے کپڑا لیتے ہوئے صرف اڑھائی لاکھ کا ایک چیک دیا، جو بینک اکاؤنٹ میں پیسے نہ ہونے پر ڈس آنر ہوگیا۔ لہٰذا ہم نے اسی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرادی تو پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔

’اس نے عدالت میں اس چیک کی بنیاد پر صرف اڑھائی لاکھ روپے ادا کیے اور رہا ہوگیا، لیکن باقی اڑھائی لاکھ ابھی تک ادا نہیں کیے۔‘

قانونی کارروائی کا چیلنج

ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم لاہور، عمران کشور کے مطابق، ’برطانوی حکومت نے فیک نیوز پھیلانے میں ملوث فرحان آصف کو پوائنٹ آؤٹ کر کے اس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔‘

ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کے بقول، ’ملزم فرحان آصف کے خلاف سائبر دہشت گردی کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔‘

لیکن سائبر کرائم کے قانونی ماہر فیصل باجوہ کے مطابق، ’ہمارے قانون میں جس علاقے میں جرم ہوتا ہے، وہیں کے متعلقہ ادارے کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ واقعات کیونکہ برطانیہ میں ہوئے ہیں لہٰذا اس میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی بھی وہیں کے قانون کے تحت ان کے ادارے کر سکتے ہیں۔ سائبر کرائم کے تحت ملزم کو پاکستان سے یا کسی اور ملک سے برطانوی سفارش پر گرفتار تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے خلاف موثر قانونی کارروائی کے یہاں کی عدالتوں میں ٹرائل کی نوعیت وہ نہیں ہوسکتی جو جرم ہونے والے علاقے میں ہو سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بے شک اس کی فیک نیوز سے برطانیہ میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے اور وہاں رہنے والے پاکستانی بھی اس فعل سے غیر محفوظ ہوئے۔ مگر جرم برطانیہ میں ہوا ہے، اس لیے اگر یہ انہیں مطلوب ہوگا تو وہ اس کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ مگر اس بارے میں بھی عالمی قوانین کو دیکھنا ہوگا کہ کیا پاکستان سے برطانیہ کے ملزمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ ہے؟ اگر نہیں، تو پھر وارنٹ گرفتاری کے ذریعے لے جایا جاسکتا ہے، لیکن اس کا ایک طویل طریقہ کار ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا