ایک سری لنکن سفیر کو عدالت نے کینبرا میں اپنی سابقہ گھریلو ملازمہ کو جدید غلامی جیسے حالات میں کام کرنے کے معاوضے کے طور پر پچھلے واجبات کی مد میں پانچ لاکھ آسٹریلین ڈالر سے زائد ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ہمالی اروناتلاکا نے، جو 2015 سے 2018 تک سری لنکا کی نائب ہائی کمشنر رہیں، وفاقی عدالت کے مطابق، پریانکا دنا رتھنا کو کم از کم صرف تین فیصد تنخواہ ادا کی۔
گھریلو ملازمین کے لیے کام کرنے والے وکیل ڈیوڈ ہِلارڈ نے کہا کہ مسز اروناتلاکا نے مسز دنارتھنا کو ان کے تین سال کے کام کے دوران پانچ ہزار 805 برطانوی پاؤنڈ (11,212 آسٹریلوی ڈالر) ادا کیے، جبکہ 38 گھنٹوں کے ہفتے کی قومی کم از کم تنخواہ 340.12 پاؤنڈ (656.90 آسٹریلوی ڈالر) تھی۔
کلیٹن یوٹز قانون فرم میں مفت قانونی سروس فراہم کرنے والے پارٹنر ڈیوڈ ہِلارڈ نے کہا کہ ’انہوں نے تین سال تک ہفتے کے سات دن کام کیا، اور اس دوران اسے صرف دو دن کی چھٹی ملی، جو کہ صرف اس وقت ملی جب وہ کھانا تیار کرتے وقت اپنا ہاتھ جلا بیٹھی تھی۔‘
مسز دنا رتھنا نے مسز اروناتلاکا کے گھر سے فرار ہونے کے بعد فیئر ورک ایکٹ کے تحت اپنی مالکن کے خلاف ایک سول کیس دائر کیا۔
جمعرات کو وفاقی عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسز اروناتلاکا نے فیئر ورک ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور حکم دیا کہ ایک لاکھ 93 ہزار 642 پاؤنڈ ( تین لاکھ 74 ہزار آسٹریلوی ڈالر) نہ ادا کی گئی تنخواہ اور مزید 87 ہزار 501.44 پاؤنڈ( ایک لاکھ 69 ہزار آسٹریلوی ڈالر) سود کی مد میں ادا کیے جائیں، جس سے کل رقم دو لاکھ81 ہزار 143 پاؤنڈ( پانچ لاکھ 43 ہزار آسٹریلوی ڈالر) سے زیادہ بنتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ مسز دنا رتھنا کو ’ہفتے میں اوسطاً 38 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا، جس میں سے روزانہ 10 گھنٹے سے زیادہ اور ہر روز کم از کم 30 منٹ کے بغیر کھانے کے وقفے کے پانچ گھنٹے سے زیادہ شامل تھے۔
اس کے علاوہ، ہفتے میں اوسطاً 38 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کے باوجود انہیں اوور ٹائم نہیں دیا جاتا تھا۔‘
عدالت نے یہ بھی لکھا کہ ان سے عوامی تعطیلات پر کام لیا جاتا تھا، اور انہیں نہ تو اضافی تنخواہ دی جاتی تھی اور نہ ہی 17.5 فیصد سالانہ چھٹی کا بونس۔‘
عدالت نے مزید کہا، ’مسز اروناتلاکا اس کارروائی میں کبھی شامل نہیں ہوئیں: انہوں نے کسی بھی نوٹس کے لیے پتہ نہیں دیا، دفاع، یا مسز دنا رتھنا کے دعوے کے خلاف کوئی ثبوت یا درخواست دائر نہیں کی۔
’وہ سماعت میں بھی نہیں آئیں۔ مسز دانارتنا نے مسز اروناتھلاکا کو اپنے دعوے کی حمایت میں تمام ضروری دستاویزات فراہم کی ہیں جن میں مقدمے کی ابتدا سے متعلق کاغذات، قانونی دلائل، شواہد شامل ہیں۔
’سماعت کے دوران ہم نے یہ حکم اس بنیاد پر جاری کیا کہ ہمیں یقین تھا کہ مسز اروناتھلاکا کو متعدد بار ان کے خلاف دعوے اور سماعت کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا، اور ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے کارروائی میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔‘
سری لنکا کی وزارت خارجہ نے مسز اروناتلاکا کا دفاع کیا اور کہا کہ انہوں نے حکومت کی طرف سے منظور شدہ نرخوں کے مطابق تنخواہ ادا کی۔
وزارت کے بیان میں کہا گیا کہ ’وزارت نے جو تنخواہ منظور کی تھی، وہ ادا کی گئی ہے۔ وزارت اس بات سے مطمئن ہے کہ ملازم نے گھریلو ملازم کو دونوں فریقوں کے درمیان طے شدہ تنخواہ ادا کی ہے۔‘
مسز اروناتلاکا سری لنکا کی مستقل نمائندہ کے طور پر اب اقوام متحدہ میں جنیوا میں کام کر رہی ہیں۔
ہِلارڈ نے الزام عائد کیا کہ ان کی موکل کو دوران ملازمت کوئی وقفہ یا چھٹیاں نہیں دی گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ’ یہ جدید غلامی کی ایک مثال ہے،
کمزور ملازمین خود کو ایک ایسی صورت حال میں پھنسے ہوئے پاتے ہیں جہاں ان کی زندگی صرف کام کے گرد گھومتی ہے،ایک ایسی ملازمت میں جس سے وہ فرار نہیں ہو سکتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ملازمہ کا پاسپورٹ سفیر نے لے لیا تھا اور مسز دنا رتھنا کو ان کی یا ان کے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔‘
اے بی سی نے حوالہ دیا کہ مسز دنا رتھنا نے عدالتی حلف نامے میں کہا کہ ’انہوں نے مجھے کہا کہ وہ میرے آسٹریلیا چھوڑنے سے پہلے پاسپورٹ مجھے واپس کریں۔ مسز اروناتلاکا نے وضاحت نہیں کی کہ انہیں میرا پاسپورٹ کیوں چاہیے۔ میں نے پاسپورٹ انہیں دے دیا۔ میں نے وہ پاسپورٹ دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔‘
مسز دنا رتھنا نے الزام لگایا کہ انہیں صرف محلے میں مختصر چہل قدمی کی اجازت دی گئی تھی جس کے باعث سیلویشن آرمی سے رابطہ کر سکی، جو ایک خیرات کرنے والی پروٹسٹنٹ مسیحی تنظیم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’14 اگست 2018 کو، میں نے مسز اروناتلاکا اور ان کے شوہر کو بتایا کہ میں چہل قدمی کے لیے جا رہی ہوں۔ میں مسز اروناتلاکا کے گھر سے نکلی، اور سیلویشن آرمی کے دو لوگ قریب ہی کار میں میرا انتظار کر رہے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ وہاں سیف ہاؤس میں رکیں۔
مسٹر ہِلارڈ نے کہا کہ سفیر کو سفارتی استثنیٰ کی حفاظت حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ اب اس ملک میں سفیر نہیں ہیں۔
صحافی اور سیاسی تجزیہ کار رنگا جے سوریا نے لکھا کہ ’سری لنکا کو صرف ساکھ بلکہ نتائج کی بھی توقع کرنی چاہیے۔‘
ڈیلی مرر میں اپنے اداریے میں، انہوں نے پوچھا کہ ’کیا زیادہ برا ہے – سری لنکن سفارت کار کو آدھا ملین آسٹریلین ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا جانا، یا وزارت خارجہ کا اس سفارت کار کا دفاع کرنا، جو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کا باعث بنے گا؟‘
دی انڈیپنڈنٹ نے تبصرے کے لیے مسز اروناتلاکا سے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent