سیشن کورٹ، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں سماعتوں، سزاؤں، ضمانتوں، فیصلوں، نظرِ ثانی اور پھر قائمہ کمیٹی اور قومی اسمبلی میں بحث، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے احتجاج، علمائے کرام کی جانب سے بیانات اور سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر دھواں دھار بحث تک پہنچنے والا یہ مقدمہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کے سب سے اہم اور مشہور مقدمات میں سے ایک ہے۔
اس سارے معاملے کی ابتدا آج سے پانچ سال قبل ہوئی۔ سات مارچ 2019 کو صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں احمدیہ کمیونٹی کے چند اراکین نے مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر بچوں میں تقسیم کی، جسے ’تفسیرِ صغیر‘ کہا جاتا ہے۔
اس واقعے کے تقریباً تین سال بعد چھ دسمبر 2022 کو چنیوٹ کے علاقے چناب نگر میں اس کے خلاف قانون کی تین شقوں کے تحت مقدمہ درج ہوا۔
ان میں سے ایک شق پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 ہے۔
اس قانون کے مطابق اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں ’کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس کیا گیا ہو‘ تو اسے تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ دفعہ 295 بی اور 298 سی بھی لگائی گئیں۔ 295 بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا جرم ہے۔ اس کی سزا عمر قید ہے۔
298 سی کا تعلق احمدیہ مذہب سے ہے اور اس کے تحت احمدی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اس کی سزا تین برس قید ہے۔
اس کے بعد سات جنوری 2023 کو پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ یہ تفسیر تقسیم کر رہے تھے۔ البتہ ابتدائی ایف آئی آر میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔
مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی، جو پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔ جب یہ اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے چھ فروری 2024 کو مبارک احمد ثانی کی ضمانت منظور کر لی۔
اس فیصلے کو مذہبی طبقے نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور خاص طور پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔
پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کی جو سپریم کورٹ نے منظور کر لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ نے کہا کہ 2019 میں ہونے والے واقعے پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکتا جو 2021 میں بطور جرم قانون میں شامل ہوئیں۔
عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزم اس نے 2019 میں تفسیر تقسیم کی جو پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے، لیکن یہ قانون 2021 میں لاگو ہوا، اس کا اطلاق 2019 کے واقعات پر نہیں ہو سکتا کیوں کہ 2019 میں ایسا کرنا جرم نہیں تھا۔
یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی زیرِ بحث آیا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف تک بھی پہنچا۔
کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں اور علمائے کرام کی رائے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی جائے۔
اس کے بعد 17 اگست 2024 کو وفاقی حکومت نے بھی اس معاملے پر اضافی نظرِ ثانی کی درخواست دے دی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 22 اگست 2024 کو نظرِ ثانی پر سماعت کرنے کے بعد مبارک ثانی کی ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے علما کی تجاویز پر فیصلے کے پیراگراف سات اور 42 حذف کرنے کا حکم دیا۔
پیراگراف سات میں لکھا گیا تھا کہ’ایف آئی آر میں ملزم پر مجموعہ تعزیرات 295 بی کا تو ذکر کیا گیا لیکن کسی قانونی شق کا صرف ذکر کرنا ملزم کے اس دفعہ کے تحت جُرم کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
پیراگراف 42 میں لکھا تھا کہ آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے، نہ ہی عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے۔
اس فیصلے کے اگلے روز یعنی جعمے کو کیی مذہبی جماعتوں نے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ علما نے جعمے کے خطبے میں بھی اس مقدمے کا ذکر کیا اور بقول ایک امام مسجد جسٹس فائز عیسی نے غلطی مان کر بڑا پن دکھایا ہے۔