پی آئی اے کا جہاز جو پراسرار طور پر اڑتے اڑتے غائب ہو گیا

35 سال پہلے گلگت سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا فوکر جہاز اڑتے اڑتے یوں غائب ہوا کہ آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

پی کے 404 کی منزل گلگت سے 300 کلومیٹر دور اسلام آباد تھی جہاں اس نے 55 منٹ کی پرواز کے بعد اترنا تھا (انڈپینڈنٹ اردو/ ساجد رانا)

25 اگست 1989: آج سے ٹھیک 35 برس پہلے، گلگت کے ہوائی اڈے سے صبح سات بج کر 36 منٹ پر پی آئی اے کے فوکر جہاز نے اڑان بھری۔ یہ ایک روشن اور چمک دار صبح تھی۔

راستے میں کسی حد تک موسم خراب ہونے کی خبریں تھیں مگر کوئی بہت زیادہ تشویش کی بات نہیں تھی۔

اس پرواز کا نام پی کے 404 تھا اور اس کی منزل 300 کلومیٹر دور اسلام آباد تھی، جہاں اس نے 55 منٹ کی پرواز کے بعد اترنا تھا۔ جہاز پر 49 مسافر اور عملے کے پانچ ارکان سوار تھے۔

جہاز کو کیپٹن ایس ایس زبیر اڑا رہے تھے جب کہ ان کے ساتھ کیپٹن احسن اقبال بلگرامی بھی تھے۔ فرسٹ آفیسر سہیل اقبال تھے۔ 

طیارہ فوکر ایف 27 فرینڈشپ تھا جو صبح سویرے اسلام آباد سے مسافروں کو لے کر گلگت پہنچا تھا اور ابھی واپسی کے پھیرے پر جا رہا تھا۔

فضا میں بلند ہونے کے چار منٹ بعد یعنی سات بج کر 40 منٹ پر پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو بتایا: ’ہم بنجی پہنچ گئے ہیں۔‘

بنجی گلگت سے کوئی 40 کلومیٹر جنوب مشرق میں شاہراہِ ریشم اور دریائے سندھ پر واقع ایک قصبہ ہے۔

یہ اس طیارے کی جانب سے آخری رابطہ تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، ٹھیک 35 سال گزر گئے ہیں مگر اس طیارے کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔

جہاز سے ’مے ڈے‘ کی کوئی ہنگامی کال آئی، نہ ہی ریڈار پر اس کا کوئی کھوج ہاتھ لگا۔

متعدد بار ہوائی اور زمینی تلاش کے باوجود طیارے کا ملبہ مل سکا اور نہ ہی اس سوال کا جواب کہ اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔

سمندر میں جہاز گم ہوتے رہتے ہیں۔ دس سال پہلے ملائشیا کی پرواز ایم ایچ 370 لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہے جو اسی طرح سے پرواز کے دوران غائب ہو گئی تھی۔

10 سال کی تلاش کے باوجود اس طیارے کا مکمل ملبہ یا بلیک باکس تو نہیں مل سکا، مگر چند ٹکڑے ضرور ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بحر ہند میں کہیں غرق ہو گیا تھا۔

لیکن سمندر سے ہزاروں کلومیٹر دور 82 فٹ لمبے اور 95 فٹ چوڑے جہاز کا غائب ہونا ایک ایسا پراسرار واقعہ ہے جو ہوابازی کے ماہرین کو آج بھی حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔

’آج تک کرب کی حالت میں ہیں‘

اس جہاز پر جو 54 افراد سوار تھے ان کے اہلِ خانہ نے آج 35 سال بعد بھی اپنے پیاروں کی یاد کی شمع روشن رکھی ہے۔

اسی طیارے میں گلگت کی مشہور شخصیت جی ایم بیگ بھی سوار تھے جن کا ذکر مستنصر حسین تارڑ نے اپنے کئی سفرناموں میں بھی کیا ہے۔

ان کے صاحبزادے اکرم بیگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرے والد جی ایم بیگ بھی اس جہاز پر سوار تھے۔ مرحوم گلگت بلتستان کی مشہور سماجی شخصیت تھے۔

’جب 89 میں یہ حادثہ ہوا تو اس کا کوئی سراغ، کوئی پتہ نہیں چلا۔ اس وقت کافی سرچ آپریشن بھی کئے گئے، ہیلی کاپٹر سے بھی اور زمین سے بھی۔ لیکن اس کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔‘

اکرام بیگ نے کہا، ’ظاہر سی بات ہے والد صاحب کی گمشدگی کا ہمیں بہت افسوس ہے۔ ابھی تک ہے۔ ابھی تک ایک مسٹری ہے کہ کیا ہوا کیا نہیں ہوا۔

’یہ ہمارے خاندان کے لیے بہت بڑا سیٹ بیک تھا۔ ابھی بھی اس کرب میں ہی کہ ہو سکتا ہے کبھی یہ منظرِ عام پر آ جائے کہ کیا ہوا تھا اس کا۔‘

ایک اور متاثرہ شخص عارف حسین کے چچا اور ان کا پورا خاندان اس جہاز پر سوار تھا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میرے خاندان کے اس میں تقریباً چھ افراد سوار تھے۔ تقریباً سے مراد یہ ہے کہ ایک نومولود کی آمد بھی متوقع تھی۔ اس لیے یہ سانحہ ہمارے خاندان پر قیامت بن کر ٹوٹا۔‘

عارف حسین نے جہاز کی گمشدگی کے نظریات کے بارے میں کہا کہ ’اس وقت ایک خبر آئی تھی کہ یہ جہاز افغانستان کے شہر پل چرخی میں اتار لیا گیا ہے اور اس بدقسمت فوکر طیارے کے سارے افراد وہاں محفوظ ہیں۔

یہاں تک کہ میرے چھوٹے دادا جن کی صاحبزادی بھی اس جہاز پر سوار تھیں، وہ ایک اور مسافر کے والد کے ہمراہ بروغل پاس تک گئے۔

وہاں انہوں نے خود ایک سرچ آپریشن انجام دیا۔ نالوں میں گئے، تلاش کرتے رہے۔‘

پھر رفتہ رفتہ یہ حقیقت سامنے آئی کہ یقیناً یہ جہاز حادثے سے دوچار ہوا ہو گا اور ان کے زندہ رہنے کا کوئی بھی امکان نہیں تھا۔‘

نہایت محفوظ جہاز

یہ جہاز ہالینڈ کی طیارہ ساز کمپنی فوکر کا بنایا ہوا تھا۔ یہ اپنے زمانے میں نہایت محفوظ جہاز تصور کیا جاتا تھا اور تمام براعظموں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا ہے۔

پاکستان میں پی آئی اے نے اسے خاصے عرصے تک کم فاصلے والی پروازوں کے لیے استعمال کیا۔

دو انجنوں والے اس جہاز کا ماڈل نمبر فرینڈشپ 200 تھا اور یہ 1962 میں بنا تھا۔ یہ 1989 تک ساڑھے 44 ہزار گھنٹے اڑ چکا تھا۔

اس سے قبل دسمبر 1972 میں فوکر ایف 27 جہاز پی کے 631 گلگت سے اسلام آباد آتے ہوئے گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں جہاز پر سوار تمام 26 افراد موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس جہاز کا پرواز کے بعد رابطہ منقطع ہوا تو پی آئی اے نے اسے بھی لاپتہ قرار دیا تھا۔

تاہم بعد میں تلاش بسیار کے بعد اگلے دن کوہستان ڈویژن کے صدر مقام داسو کے قریب جل کوٹ نامی ایک گاؤں سے اس کا ملبہ دریافت کر لیا گیا۔

فوکر قابلِ اعتماد طیارہ سہی، لیکن ہر مشینری کی عمر ہوتی ہے۔ جب پاکستان کے پاس موجود طیارے پرانے ہونے لگے تو حادثات کی تعداد بھی بڑھ گئی۔

آخر جب 10 جولائی 2006 کو ملتان سے لاہور جانے والا ایک فوکر جہاز آموں کے ایک باغ  میں گر کر تباہ ہو گیا اور اپنے ساتھ 45 لوگوں کی جانیں بھی لے گیا تو پی آئی اے نے فوکر جہازوں کو ریٹائر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ان کی جگہ اے ٹی آر طیارے حاصل کر لیے جو آج بھی چھوٹے روٹس پر چل رہے ہیں۔

لیکن فلائیٹ 404 والا فوکر اتنا بھی دقیانوسی نہیں تھا کہ اچانک آسمان میں اڑتے اڑتے غائب ہو جائے۔ آخر یہ گیا کہاں، اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے متعدد مفروضے قائم کیے گئے ہیں۔

طیارہ اغوا ہو گیا

اس وقت ایک افواہ یہ چلی تھی کہ شاید جہاز اغوا کر کے وسطی ایشیا کے کسی ملک میں پہنچا دیا گیا ہے۔

اس سے قبل 1981 میں پی آئی اے کی ایک پرواز اغوا کر کے افغانستان پہنچا دی گئی تھی جن سے ان افواہوں کو ہوا ملی۔

پہاڑوں میں  گر گیا

ایک عینی شاہد نے جہاز کو نانگا پربت کے قریب اڑتا دیکھا۔ 8126 میٹر بلند نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کے دامن میں متعدد بڑے گلیشیئر موجود ہیں جہاں جہاز غائب ہو سکتا ہے۔

پھر یہ بھی ممکن ہے کہ جس جگہ جہاز ٹکرایا ہو وہاں برفانی تودہ اس کے اوپر آن گرا ہو جس نے جہاز کو مکمل طور پر ڈھک لیا، اور آج تک جہاز برف تلے دبا ہوا ہو۔

تاہم عارف حسین کہتے ہیں کہ ’یہ اگست کا مہینہ تھا جب بہت سے چرواہے اوپر چوٹیوں پر گئے ہوتے ہیں۔ اگر جہاز کہیں گرا ہوتا تو کسی نہ کسی نے کچھ ضرور دیکھا ہوتا۔‘

انڈیا نے مار گرایا

ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ شاید جہاز راستہ بھٹک کر لائن آف کنٹرول پار کر گیا ہو جہاں اسے انڈیا نے مار گرایا۔

عارف کہتے ہیں کہ ’اس جہاز کے ساتھ ہوا کیا، یہ محض قیاس آرائیاں ہیں۔ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ شاید یہ جہاز انڈیا کے بارڈر پار کیا ہو، اور انڈین علاقے کے اندر شاید اس کو ہٹ کیا گیا ہو۔‘

تاہم انڈیا نے اس کی تردید کی تھی، اور اس وقت کے اخباروں کے مطابق اس نے پاکستانی سرچ مشن کے جہازوں کو لائن آف کنٹرول کے اوپر پرواز کرنے کی خصوصی اجازت بھی دی تھی۔ 

سمندر میں تو کئی جہاز غائب ہوئے ہیں، لیکن خشکی پر پی کے 404 کی گمشدگی ہوابازی کی تاریخ کا ایسا انوکھا واقعہ ہے جس میں بظاہر سب سے زیادہ تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں۔

اس سے قبل 1968 میں انڈین ایئر فورس کا ایک جہاز لداخ کے علاقے میں طوفانی موسم کے دوران گم ہو گیا تھا۔

تلاش بسیار کے بعد اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ البتہ ٹھیک 51 سال اس جہاز کا ملبہ 17 ہزار فٹ بلند ایک گلیشیئر پر مل گیا۔

گلگت سے غائب ہونے والی پی آئی اے کی فلائیٹ کا نمبر پی کے 404 تھا۔ کمپیوٹر میں ایک ایرر میسج آتا ہے، 404 ناٹ فاؤنڈ۔ ایک عجیب و غریب اتفاق یہ ہے کہ یہ فلائیٹ 404 بھی آج تک ناٹ فاؤنڈ ہی ہے۔

البتہ اگر انڈین جہاز کا ملبہ نصف صدی کے بعد مل سکتا ہے تو اس سے امید بندھتی ہے کہ شاید کسی نہ کسی دن پی کے 404 کا ملبہ بھی ہمالیہ یا قراقرم کی کسی بادلوں میں ڈھکی چوٹی کے پہلو یا کسی گہری کھائی میں پڑا مل جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان