مشرق وسطیٰ سے چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری چاہتے ہیں: سٹیٹ بینک

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان غیر ملکی زرمبادلہ کے خلا کو پورا کرنے کے لیے اگلے مالی سال تک مشرق وسطیٰ کے کمرشل بینکوں سے چار ارب ڈالر حاصل کرنا چاہتا ہے۔

نئے گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے برطانیہ، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک کے مالیاتی اداروں سے مختلف تربیتی کورسز بھی کر رکھے ہیں(سٹیٹ بینک آف پاکستان ٹوئٹر)

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان گلے مالی سال تک مشرق وسطیٰ کے کمرشل بینکوں سے چار ارب ڈالر حاصل کرنا چاہتا ہے، جس کا بظاہر مقصد غیر ملکی زرمبادلہ کے خلا کو پورا کرنا ہے۔

2022 میں گورنر سٹیٹ بینک کا عہدہ سنبھالنے والے جمیل احمد نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نئے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری کے لیے درکار اضافی بیرونی فنانسنگ کے لیے دو ارب ڈالر کے حصول کے ’اگلے مرحلے‘ میں ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف نے جولائی میں نئے پروگرام پر ایک معاہدہ کیا تھا جو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ ساتھ ہی یہ اس بات سے مشروط ہے کہ پاکستان ترقیاتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے ضروری مالیاتی یقین دہانیوں کی بروقت تصدیق حاصل کرے۔

مانیٹری پالیسی کے بارے میں پوچھے جانے پر جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان میں شرح سود میں حالیہ کمی کے مطلوبہ نتائج سامنے آ رہے ہیں جن میں افراط زر کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے اور کٹوتیوں کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ کنٹرول میں ہے۔

پاکستان میں سالانہ کنزیومر پرائس انڈیکس جولائی میں 11.1 فیصد تھا جو 2023 میں 30 فیصد سے زیادہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔

جمیل احمد نے کہا: ’مانیٹری پالیسی کمیٹی ان تمام پیش رفتوں کا جائزہ لے گی جب کہ مستقبل میں شرح سود کا فیصلہ پہلے سے طے نہیں کیا جا سکتا۔

مرکزی بینک نے مسلسل دوسری بار شرح سود میں کمی کی ہے جو 22 فیصد کی تاریخی بلندی سے کم ہو کر 19.5 فیصد پر آ گئی ہے جب کہ 12 ستمبر کو مانیٹری پالیسی کا جائزہ لینے کے لیے دوبارہ اجلاس ہو گا۔

گورنر سٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ ’اب ہمیں ترقی اور دیگر متعلقہ شعبوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی کیونکہ یہ ملازمتیں پیدا کرنے اور دیگر سماجی اقتصادی سرگرمیوں کے لیے بھی اتنے ہی اہم ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی بینک کا مینڈیٹ ترقی کی طرف توجہ مرکوز کرنے سے پہلے قیمتوں اور مالی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

اس سے قبل عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے کہا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستانی حکومت کے حالیہ معاہدے کے نتیجے میں دیگر دوطرفہ اور کثیر الجہتی شراکت داروں کو پاکستان کی بیرونی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی، تاہم سخت شرائط کے باعث مہنگائی میں اضافے سے معاشرے میں تناؤ میں اضافہ ہوگا۔

گذشتہ ماہ عالمی مالیاتی فنڈ اور پاکستان کے درمیان 37 ماہ کی مدت کے لیے سات ارب ڈالر کے امدادی پیکج کا سٹاف لیول معاہدہ طے پایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ اس نئے پروگرام کو فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی توثیق درکار ہے، جو پاکستان کے ’میکرو اکنامک استحکام کو مزید مضبوط کرنے اور زیادہ جامع اور لچکدار ترقی کے لیے حالات پیدا کرنے کے قابل بنائے گا۔‘

حالیہ معاہدے کے تناظر میں موڈیز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’12 جولائی 2024 کو ’آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان 37 مہینوں کے لیے تقریباً سات ارب ڈالر کے توسیع یافتہ فنڈنگ پروگرام کے حوالے سے سٹاف لیول معاہدے سے فنڈنگ کے امکانات بہتر ہوئے ہیں لیکن پاکستان کے لیے لیکویڈیٹی کے خطرات کو کم کرنے کی غرض سے اصلاحات کو برقرار رکھنا ضروری ہوگا۔‘

موڈیز نے مزید کہا گیا کہ ’یہ معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے تاہم اس پر ووٹنگ کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے۔ اگر منظوری مل جاتی ہے، جس کی ہمیں توقع ہے، تو نئے آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان کے فنڈنگ کے امکانات بہتر ہوں گے۔‘

موڈیز کے مطابق: ’اس پروگرام کے ذریعے آئی ایم ایف سے فنڈنگ ملے گی اور دیگر دوطرفہ اور کثیر الجہتی شراکت داروں کو پاکستان کی بیرونی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔‘

تاہم یہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اصلاحات کے نفاذ کو برقرار رکھنے کی حکومتی صلاحیت پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی مدت کے دوران مسلسل فنانسنگ حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی، جس سے حکومت کی لیکویڈیٹی کے خطرات میں پائیدار کمی آئے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت