وادی تیراہ، ضلع خیبر کے متاثرین نے گذشتہ 27 دنوں سے پاکستان افغان شاہراہ پر دھرنا دے رکھا ہے، جس میں وہ اپنے گھروں کی واپسی اور علاقے کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دھرنے کی قیادت کرنے والے قبائلی مشر ملک نصیر نے کہا کہ ’پندرہ سال ہو گئے کہ ہم اپنے گھروں اور علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں اور ابھی تک واپسی کی کوئی امید نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ متاثرہ گھروں کا کیا ہو گا۔‘
وادی تیراہ کے لوگ 2008 اور 2009 میں اس وقت عارضی نقل مکانی پر مجبور ہو گئے جب وہاں پر شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
اس کے بعد چند سال پہلے عارضی نقل مکانی کرنے والوں کی مرحلہ وار واپسی کا اعلان کیا گیا اور تقریباً 60 فیصد خاندان واپس جا چکے ہیں لیکن باقی خاندان ابھی بھی خیبر کے دیگر علاقوں میں آباد ہیں۔ واپس جانے والے متاثرین کے حوالے سے ملک نصیر نے بتایا کہ ان میں زیادہ تر اب بھی خیموں میں رہ رہے ہیں کیونکہ ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں اور حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں کی گئی تاکہ وہ اپنے مکانات دوبارہ تعمیر کر سکیں۔
ملک نصیر نے مزید کہا ’ہمارے کوکی خیل قبیلے کے لوگ خیبر کے دیگر علاقوں میں کرائے کے گھروں میں مقیم ہیں یا کسی نے ایک دو کمرے دے رکھے ہیں، اسی میں آباد ہیں۔ کچھ لوگ اتنے مجبور ہوگئے ہیں کہ اب خیرات اور زکوٰۃ لے رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ فلسطین کے بعد تیراہ کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہیں کیونکہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کے گھر تباہ کر دیے گئے، لیکن اب واپسی میں تاخیر کی جا رہی ہے۔
ملک نصیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ سال بھی انہوں نے دھرنا دیا تھا اور باقاعدہ نوٹیفیکیشن کے ذریعے واپسی کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ’ہمارے لوگوں کی وہاں پر فصلیں تھیں، بھیڑ بکریاں پالتے تھے اور اچھے حالات میں زندگی گزار رہے تھے، لیکن شدت پسندی اور نقل مکانی نے ہمیں فاقوں پر مجبور کیا۔‘
دھرنے کے شرکا نے گذشتہ سات دنوں سے پاک افغان شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر رکھا ہے، جس سے طورخم بارڈر پر مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ملک نصیر نے واضح کیا کہ ان کے مطالبات ہیں کہ انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے دیا جائے اور متاثرین کے لیے باقاعدہ امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے تاکہ یہ لوگ اپنے مکانات دوبارہ بحال کر سکیں۔
وادی تیراہ متاثرین کے دھرنے کے شرکا کے مطالبات کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تیراہ متاثرین میں زیادہ تر کی بحالی ہو چکی ہے جبکہ باقی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ ’تقریباً 60 فیصد متاثرین کی بحالی ہو چکی ہے اور واپس جا چکے ہے جبکہ باقی کی واپسی بھی جلد ہو جائے گی۔‘
دوسری جانب ضلع خیبر کی انتظامیہ کی جانب سے اس دھرنے اور اس میں شرکا کے مطالبات کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر ثنا اللہ خان کی سربراہی میں گذشتہ روز دھرنا منتظمین کے ساتھ ایک اجلاس بھی ہوا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے مطالبات اعلیٰ حکومتی و عسکری قیادت کو پہنچائے ہیں اور وزیر اعلیٰ کی جانب سے اس مسئلے کو اپیکس کمیٹی میں اٹھانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ڈیڈ لاک اس وجہ سے برقرار ہے کہ دھرنا شرکا فوری طور پر واپسی چاہتے ہیں جبکہ بظاہر فوری واپسی ممکن نہیں ہے کیونکہ پہلے سے کچھ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور تب ہی واپسی ممکن ہوسکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے واپس جانے والے متاثرین میں امدادی پیکجز بھی تقسیم کیے گئے ہیں لیکن ابھی باقی ماندہ خاندانوں کی واپسی کا فیصلہ اعلیٰ حکام کریں گے۔‘
وادی تیراہ گذشتہ تقریباً 15 سالوں سے شدت پسندی سے متاثر ہے، جہاں مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے فوجی آپریشنز کیے گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق ایک ہفتے پر محیط انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن میں 25 شدت پسند مارے گئے جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر اسلام، اور جماعت الاحرار کے شدت پسند شامل تھے۔ اس آپریشن میں چار فوجی جوان بھی جان کی بازی ہار گئے۔
وادی تیراہ میں شدت پسندی کا پس منظر
وادی تیراہ تقریباً 100 کلومیٹر پر محیط وادی ہے، جس کا کچھ حصہ ضلع اورکزئی میں بھی شامل ہے اور یہ ایک سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم افغانستان میں افغان طالبان کی عبوری حکومت آنے کے بعد دیگر ضم اضلاع کی طرح خیبر اور وادی تیراہ میں شدت پسندی نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور اس کی وجہ وادی تیراہ کا افغانستان کے ساتھ متصل بارڈر ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق شدت پسند افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور یہاں پر کارروائی کر کے واپس افغانستان میں چھپ جاتے ہیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے متعدد بار افغان طالبان کو احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے، تاہم افغان طالبان کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی طالبان افغانستان میں موجود نہیں ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کچھ دن پہلے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا تھا، ’یہ (ٹی ٹی پی) پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اگر پاکستان چاہے تو ہم دوبارہ ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
تاہم اقوام متحدہ نے اپنی مختلف رپورٹس میں پاکستانی طالبان کی افغانستان میں موجودگی اور اسے پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے جبکہ ایک رپورٹ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی طالبان کو سپورٹ بھی فراہم کی جاتی ہے۔
ماضی میں ضلع خیبر اور خاص طور پر وادی تیراہ میں لشکر اسلام نامی شدت پسند گروپ سرگرم رہا، جس کی سربراہی منگل باغ کر رہے تھے، جو 2021 میں ایک مائن بلاسٹ میں افغانستان میں جان سے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رفعت اللہ اورکزئی، جو گزشتہ 20 سالوں سے خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کی کوریج کر رہے ہیں اور تقریباً 15 سال بی بی سی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وادی تیراہ معدنیات اور جنگلات سے مالامال ہے اور شدت پسندی سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’ماضی میں بھی یہ علاقے پسماندہ رہے ہیں اور انگریز دور سے یہ علاقہ برٹش فورسز کے لیے ایک سخت جگہ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی اور لشکر اسلام کی موجودگی ماضی میں بھی رہی ہے اور اب بھی یہاں مسئلہ ہے۔ افغان طالبان نے بھی ایک وقت میں الزام لگایا تھا کہ اس علاقے میں نام نہاد داعش کے جنگجو موجود ہیں، لیکن رفعت اللہ کے مطابق بظاہر اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ پاکستانی حکام نے حال ہی میں اس علاقے کو کلیئر کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ یہاں شدت پسند کارروائی کر کے قریبی ضلع اورکزئی یا افغانستان چلے جاتے ہیں، جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشکلات پیش آتی ہیں۔