دنیا کے مضبوط ترین انسان کی طاقت کا راز کیا؟

سال 2017 میں دنیا کے مضبوط ترین مرد کا لقب پانے والے ہال نے تاریخ میں 500 کلوگرام وزن کے سب سے بھاری ڈیڈلیفٹ کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا تھا، جب تک کہ یہ ریکارڈ 2020 میں آئس لینڈ کے ہافور جولیوس بیورنسن نے توڑ نہیں دیا۔

ایڈی ہال 07 جولائی 2019 کو سان برنارڈینو، کیلیفورنیا میں سان برنارڈینو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ’ایول لائیو 2‘ کے دوران پرفارم کر رہے ہیں (رچ فیوری/ اے ایف پی)

جب ہم ایڈی ہال جیسے عالمی معیار کے مضبوط کھلاڑی اور ڈیڈ لفٹ چیمپیئن کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم تصور کرتے ہیں کہ ان کی سپر ہیومن طاقت ان کے طاقتور پٹھوں کی وجہ سے ہے۔

لیکن سائنس دانوں نے ہال کی انتہائی طاقت کا راز دریافت کیا ہے جو ٹانگ میں تین لمبے اور پتلے پٹھوں کے ایک سیٹ سے پیدا ہوسکتا ہے۔ ملا کر انہیں’ گائے روپس‘ کے پٹھوں کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ تینوں مل کر ناف کے نیچلے حصے اور ران کو مستحکم کرنے کا کام کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے خیمے کو مضبوطی سے باندھنے کے لیےاستعمال ہونے والی رسیاں۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہال میں یہ پٹھے جن کو سارٹوریئس، گریسیلیس اور سیمیٹینڈینوسس کہا جاتا ہے، ان مردوں کے مقابلے میں 140 سے 202 فیصد بڑے تھے جو ورزش نہیں کرتے۔

 Loughborough یونیورسٹی کے سکول آف سپورٹس، ایکسرسائز اینڈ ہیلتھ سائنسز میں نیورو ماسکولر پرفارمنس کے پروفیسر جوناتھن فولنڈ کا کہنا ہے کہ ’آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایڈی ہال جیسے غیر معمولی طور پر مضبوط شخص کے پٹھے بہت بڑے ہوں گے اور آپ اسے دیکھ کر اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

’ہمیں توقع تھی کہ گھٹنے اور کولہے کو بڑھانے میں شامل بڑے پٹھوں کی سب سے زیادہ نشوونما ہوئی ہو گی۔‘

’اگرچہ ان پٹھوں کی یقینی طور پر اچھی طرح سے نشوونما ہوئی تھی، لیکن ہم حیران تھے کہ پٹھوں کی سب سے زیادہ نشوونما لمبے ، پتلے ’گائے روپس‘ کے پٹھوں کی تھی۔ ’ان پٹھوں پر سائنسی طور پر بہت کم توجہ دی گئی ہے ، لہذا ہم واقعی نہیں جانتے کہ وہ مختلف کاموں میں کتنے اہم ہیں۔

’لیکن یہ جاننا کہ ایک ایسے شخص میں ان کی نشوونما بہت اچھی طرح سے ہوئی ہے جس نے کئی دہائیوں تک بھاری بوجھ اٹھانے اور اٹھانے میں وقت گزارا ہے - اور وہ اس میں بہت اچھا ہے - واقعی دلچسپ تھا۔ ’یہ پٹھے واضح طور پر بہت بھاری بوجھ اٹھانے اور لے جانے کے لیے ماضی میں ہماری سوچ سے زیادہ اہم ہیں۔‘

سال 2017 میں دنیا کے مضبوط ترین مرد کا لقب پانے والے ہال نے تاریخ میں 500 کلوگرام وزن کے سب سے بھاری ڈیڈلیفٹ کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا تھا، جب تک کہ یہ ریکارڈ 2020 میں آئس لینڈ کے ہافور جولیوس بیورنسن نے توڑ نہیں دیا۔

پروفیسر فولینڈ نے کہا: ’لوگ تہذیب کے آغاز سے ہی ایسے کھیل جن میں جسمانی قوت لگتی ہو اور مضبوط مردوں میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ایڈی ہال جیسے لوگوں کا مطالعہ کرنے والا سائنسی کام تقریباً صفر رہا ہے۔‘

محققین نے ہال، جنہیں دی بیسٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو Loughborough یونیورسٹی میں متعدد ٹیسٹوں میں حصہ لینے کی دعوت دی، جن میں ایم آر آئی سکین اور آئسومیتریک مڈ-تھائی پلز شامل تھے - جوکہ ڈیڈلیفٹ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ طاقت ٹیسٹ کرنے کا ایک قابل اعتماد طریقہ ہے۔

ان کا مقصد یہ سمجھنا تھا کہ مختلف آبادیوں میں مضبوط لوگوں کے پٹھے کتنے طاقت ور ہوتے ہیں، چاہے وہ ہال جیسے انتہائی مضبوط کھلاڑی ہوں یا کمزور اور ناتواں لوگ۔

ہال کے ٹیسٹوں کے نتائج کا موازنہ 200 سے زائد افراد سے کیا گیا جن میں ایلیٹ ایتھلیٹس، باقاعدگی سے مشق کرنے والے افراد اور غیر تربیت یافتہ افراد شامل تھے۔

جرنل آف اپلائیڈ فزیالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ہال کے نچلے جسم کے پٹھوں کی کمیت غیر تربیت یافتہ مردوں کے مقابلے میں تقریبا دوگنی تھی جبکہ ان کے پٹھوں کا حجم، جو ران کے سامنے ہوتا ہے، دوگنا بڑا تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ پنڈلی کے پٹھے جنہیں پلانٹر فلیکسر کے نام سے جانا جاتا ہے، ورزش نہ کرنے والے مردوں کے مقابلے میں 120 فیصد بڑے تھے۔

ٹیم نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان کا پیٹلا ٹینڈن، پتلی لچکدار بافت جس سے اس کی کوادریسیپس پٹھے جڑے ہوئے ہیں، صرف 30% بڑا تھا، اس کے باوجود کوادریسیپس دو گنا بڑے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین کے بقول اس سے پتا چلتا ہے کہ ورزش کرنے سے ہمارے پٹھے بہت جلد مضبوط اور لچکدار بن جاتے ہیں جبکہ ٹینڈنز(پٹھوں کو ہڈیوں سے جوڑنے والی بافتیں) اتنی جلدی مضبوط نہیں ہوتے۔

ٹیم نے مزید کہا کہ دیگر پٹھوں، جیساکہ کولہے کو لچکدار بنانے والے، میں ورزش نہ کرنے والے افراد کی نسبت معمولی نشوونما نظر آئی۔

ہال کا کہنا تھا کہ ’یہ جاننا بہت دلچسپ رہا ہے کہ آپ کے پٹھے کس طرح رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور میں اپنے جسم سے جو طاقت لگاتا رہا ہوں اس پر ٹنڈنز کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔‘

اسی یونیورسٹی کے سکول آف سپورٹس، ایکسرسائز اینڈ ہیلتھ سائنسز سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ٹام بالشا کا کہنا ہے کہ ’مجموعی طور پر نتائج سے پتا چلتا ہے کہ عضلاتی نظام کتنا تبدیل ہو سکتا ہے، اس ایڈی ہال کی مثال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے جن پٹھوں کی زیادہ سے زیادہ ورزش کی اور استعمال کیا، وہ دوسرے پٹھوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑے اور مضبوط ہو گئے۔

’اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم سب اپنے عضلاتی نظام کے افعال اور کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اپنے پٹھوں کے نظام کو تبدیل اور بہتر کر سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت