اس کالم کو مصنف کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔
چینی ورزش کے دیوانے ہیں۔ صبح ہو یا شام، آندھی ہو یا طوفان، وہ اپنی ورزش ضرور کرتے ہیں۔
ہر ایک کی اپنی پسندیدہ ورزش ہے۔ کسی کو دوڑنا پسند ہے تو کسی کو چہل قدمی کا شوق ہے۔ کوئی بیڈمنٹن کھیلتا ہے تو کوئی روایتی چینی کھیلوں کے ذریعے اپنے جسم کو حرکت میں لانا پسند کرتا ہے۔
چین میں رقص کو بھی ایک صحت مندانہ تفریحی سرگرمی میں شمار کیا جاتا ہے۔ اکثر چینی شہری خود کو صحت مند، تندرست و توانا رکھنے کے لیے عوامی مقامات پر گروہ کی صورت میں رقص کرتے ہیں۔
اکثر شام میں باہر نکلیں تو چینی مردوں اور عورتوں کے چھوٹے بڑے گروہ موسیقی لگائے رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چینی اس رقص کو سکوائر ڈانس کہتے ہیں۔ یہ ہر جگہ ہو رہا ہوتا ہے۔ پارکوں میں، گلیوں میں، سڑک کنارے، حتیٰ کہ ریستورانوں کے باہر۔ جہاں کھلی جگہ موجود ہو چینی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس رقص میں شامل افراد بڑی عمر کے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کی عمر چالیس سال سے زائد ہوتی ہے۔
یہ گروہ کافی منظم ہوتے ہیں۔ ان کا باقاعدہ ایک رہنما ہوتا ہے۔ یہ رہنما گروہ کے آگے کھڑا ہو کر انہیں رقص سکھاتا ہے۔
چین میں یہ رقص 1990 کی دہائی کے وسط میں مقبول ہونا شروع ہوا تھا۔ اس میں زیادہ تر بڑی عمر کے افراد شامل تھے۔ وہ صبح یا شام کے اوقات میں اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور قریب موجود کسی کھلی جگہ پر خود کو تندرست اور چاک و چوبند رکھنے کے لیے ایک گروہ کی صورت میں رقص کرتے تھے۔
بیجنگ 2008 کے اولمپک اور پیرا اولمپک کھیلوں سے قبل اس رقص کی مقبولیت میں شدید اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت چینی حکومت عوام میں کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے ایک ملک گیر مہم چلا رہی تھی۔ اس مہم کے نتیجے میں بزرگ افراد کی ایک بڑی تعداد نے سکوائر ڈانس میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس رقص کی مقبولیت اس قدر بڑھی کہ اس کے باقاعدہ مقابلے ہونے لگے۔
سکوائر ڈانس کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ اس کا ہر ایک کی رسائی میں ہونا تھا۔ کوئی بھی شخص اپنے قریبی گروہ کا حصہ بن سکتا تھا اور اسے اس کے لیے کسی فیس کی ادائیگی بھی نہیں کرنی پڑتی تھی۔
یہ ان لوگوں کے لیے بہترین ورزش تھی جو اپنے گھر سے بہت دور نہیں جا سکتے تھے، بھاری فیسوں کی ادائیگی نہیں کر سکتے تھے اور سخت ورزش نہیں کر سکتے تھے۔ یعنی عمر رسیدہ افراد۔
وہ اس گروہ کا حصہ بن کر ہلکے پھلکے رقص کی مدد سے اپنے جسم کو حرکت میں لاتے تھے۔ اس سے ان کی صحت پر اچھے اثرات پڑتے تھے۔ وہ اس سرگرمی کے لیے روزانہ گھر سے باہر نکلتے تھے۔ اپنے گروہ سے ملتے تھے۔ اس سے ان کا سماجی میل جول بھی بہتر ہوتا تھا۔
آج سکوائر ڈانس چین کی ثقافت کا اہم حصہ بن چکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق چین میں دس کروڑ سے زائد افراد سکوائر ڈانس کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر فرد اس ڈانس پر ماہانہ 300 سے 500 یوآن خرچ کرتا ہے۔ وہ ان پیسوں سے اپنے لیے کپڑے، جوتے یا ہاتھ میں پکڑنے والے روائیتی چینی پنکھے یا دیگر اشیا خریدتے ہیں۔
کچھ سال قبل چینی حکومت نے اس رقص کو منظم بنانے کی کوشش کی تھی۔ چونکہ یہ رقص عوامی جگہوں پر ہوتا ہے تو بہت سے لوگ اس سے تنگ ہونا شروع ہو گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینی بزرگ اپنی رہائش کے قریب کسی بھی کھلی جگہ کو اپنے رقص کے لیے چن لیتے تھے۔ وہ سپیکر پر اپنی پسند کی موسیقی اونچی آواز میں لگاتے تھے جو دیگر رہائشیوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی تھی۔
بہت سی شکایات موصول ہونے کے بعد چینی حکومت نے اس رقص کو منظم کرنے کے لیے کچھ اصول متعارف کروائے تھے۔ سب سے پہلے موسیقی کی حد مقرر کی گئی تھی۔ اس حد سے اونچی آواز میں موسیقی لگانے پر رقص کرنے والوں کو جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
جون 2017 میں چینی حکومت نے اس رقص کی وجہ سے ہونے والی آواز کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے خصوصی آڈیو آلات بھی متعارف کروائے تھے۔ یہ آلات آواز کی لہروں کی ترسیل کو محدود کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ جگہ سکوائر ڈانس کرنے والے گروہ نے وائرلیس ہیڈ فون کا استعمال کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔
مارچ 2017 میں ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانہ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ کچھ علاقوں میں سکوائر ڈانس کرنے والوں کے لیے مقامات بھی مخصوص کیے گئے تھے۔
جدید چین میں سکوائر ڈانس بھی جدید ہو چکا ہے۔ اب یہ محض ایک ورزش نہیں رہا بلکہ ایک شوق یا کچھ کے لیے پیسے کمانے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ بہت سے گروہ سوشل میڈیا اور لائیو سٹریمنگ پلیٹ فارم پر اپنے رقص کی ویڈیوز اپلوڈ کر کے پیسے کماتے ہیں۔ یعنی ورزش کی ورزش اور کام کا کام۔