پشتون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے ٹرتھ اینڈ ریکنسیلیئشن کمیشن کے قیام کے لیے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ بات عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان انجینیئر احسان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک انٹرویو میں بتائی۔
ان کا کہنا تھا ملک جب تک ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے کی نہیں سوچے گا، آگے نہیں بڑھ سکتا۔
’جب تک ہم ذاتی انا سے باہر نہیں آئیں گے تو کچھ بھی سیکھ نہیں سکتے۔‘
احسان اللہ خان سال 2012 سے عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ ہیں۔ اس سے قبل وہ متحدہ عرب امارات میں پارٹی کے لیے خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں پارٹی کے بننے والے پہلے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی افق پر آج کل مذاکرات کی بحث چل رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے چاہییں یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ؟ اے این پی کا موقف دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسائل کی مناسب تشخیص کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
’اس کمیشن کے سامنے جج ہوں یا جنرل، صحافی ہوں یا سیاست دان سب کو پیش ہونا چاہیے اور اپنی اپنی غلطی کا ادراک کرنا چاہیے۔‘
11 اکتوبر کو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے ضلع خیبر میں ’پشتون عدالت‘ لگانے کا اعلان کیا ہے جس میں اے این پی کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
احسان اللہ خان کا کہنا تھا کہ ان کا موقف ہے کہ کسی سیاسی اجتماع سے غیرحاضر نہیں ہونا چاہیے۔
’بات سننی بھی چاہیے اور کہنی بھی۔ ہمیں اس کے نام یعنی عدالت لفظ کی جگہ جرگہ ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا تاہم ہم اس میں شرکت کریں گے۔ ہمیں وسیع البنیاد بات کرنی چاہیے۔‘
سوال کیا گیا کہ عوامی نیشنل پارٹی کی 2000 کے بعد سے انتخابی مقبولیت میں کمی آئی ہے کیا کوئی تجزیہ ہوا کہ ایسا کیوں ہوا؟
مرکزی ترجمان، جنہیں اس عہدے کی ذمہ داری اس سال مئی میں دی گئی، کا کہنا تھا کہ وہ 2013، 2018 اور حالیہ عام انتخابات سے متعلق تحفظات رکھتے ہیں۔ البتہ انہوں نے اقرار کیا کہ شاید نوجوان نسل کا جماعت میں آگے نہ آنا بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔
کمزور بیانیے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کہیں اسے گرمی اور کہیں نرمی کے ساتھ چلانا بھی ایک دوسری غلطی ہوسکتی ہے۔
وہ تاہم اس تاثر سے متفق نہیں تھے کہ ماضی میں صوبے کا نام تبدیل کرنے اور کالا باغ ڈیم جیسے ایشوز کے ختم ہونے کے بعد ان کی سیاست ختم ہوگئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سیاست ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ تو نام ہے خدمت کا۔ عوام کی خدمت کیسے کریں جب حکومت نہ ملے تو۔‘
سیاست چھوڑنے کا کام تو صرف پی ٹی آئی تک آج کل محدود نظر آتا تھا لیکن اے این پی کو کیا ہوا؟ کیا اندورنی ٹوٹ پھوٹ کے اشارے تو نہیں؟ اخبارات میں عوامی نینشل پارٹی کے دو بڑے سینیئر نام غلام احمد بلور اور زاہد خان کے سبکدوش ہونے کی خبروں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے غلام بلور کی حد تک یہ کہا کہ وہ پارلیمانی سیاست چھوڑ رہے ہیں لیکن جماعت اور نوجوانوں کے لیے اہم ہیں۔
’جماعت ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتی رہے گی۔‘
زاہد خان کے بارے میں انہوں نے کچھ کہنے سے احتراز کیا۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں سب سے بڑا مسئلہ آج کل امن و امان کا ہے۔
سوال کیا گیا کہ بطور پشتون قوم پرست پارٹی، آپ لوگ آپریشن کے بھی خلاف ہیں اور طالبان سے بات چیت کے بھی، تو اس مسئلے کا حل پھر کیا ہے؟ تو احسان اللہ نے کہا کہ ’ درست حل تب سامنے آئے گا جب تشخیص درست ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہیں شدت پسندی کے ابھرنے اور ختم ہونے پر شک ہے۔ ’یہ بٹن کہاں لگا ہوا ہے کہ دو چار سال حالات بہتر ہوتے ہیں اور پھر خراب ہو جاتے ہیں۔ کیوں پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کمزور رکھے گئے ہیں۔‘
احسان اللہ کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کس بنیاد پر ہوسکتے ہیں؟ ’وہ ہمیں اچھا تو کیا مسلمان بھی شاید نہیں مانتے۔ وہ مذاکرات محض وقت حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں اور پھر حملہ کر دیتے ہیں۔‘
گذشتہ عام انتخابات میں بھی اے این پی کو بری شکست ہوئی۔ تو پوچھا کہ آیا مسئلہ جماعت کی قیادت کا ولی باغ تک محدود ہونا تو کہیں نہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر تاریخی طور پر درست نہیں کیوں کہ اس جماعت کے ارباب سکندر خلیل اور اجمل خٹک بھی سربراہ رہے ہیں۔
’دوسرا انٹرا پارٹی انتخابات شفاف ہوتے ہیں۔ ولی خاندان کو سیاست میں آنے سے کچھ نہیں ملا بلکہ محض قید، خودکش حملے اور جائیداد کا ضبط ہونا ملا۔‘