وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج نے کہا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواست پر فیصلہ جسے گذشتہ روز محفوظ کیا تھا، اب ریفرنس کے فیصلے کے ساتھ سنایا جائے گا۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے سماعت کی جس کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلا عثمان گل اور چوہدری ظہیر عباس عدالت میں پیش ہوئے۔
190 ملین پائونڈ ریفرنس میں وکلا نے ریفرنس کے تفتیشی میاں عمر ندیم پر جرح کی۔
عدالت نے بشری بی بی کی بریت کی درخواست پر بھی احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواست پر محفوظ فیصلہ ریفرنس کے فیصلے کے ساتھ سنایا جائے گا۔ اس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت سات ستمبر تک ملتوی کر دی
190 ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟
نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458 کنال، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے جس کے بدلے میں مبینہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق تین دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔
نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف تین ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔
نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدہ اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بطور کابینہ ممبر آپ نے 3 دسمبر 2019 کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر 2 پر فیصلہ کیا۔‘
نوٹس کے مطابق مذکورہ کابینہ اجلاس میں آئٹم نمبر 2 کا عنوان تھا ’احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ۔‘
اس معاملے پر ایجنڈا آئٹم وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ (شہزاد اکبر) نے پیش کیا تھا اور بریفنگ دینے کے ساتھ کابینہ سیکریٹری کو ہدایت کی تھی کہ ریکارڈ کو سیل کردیا جائے۔ نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض کو بھی طلب کیا گیا تھا۔
این سی اے کی رقم ملک ریاض کو کیسے واپس ملی؟
2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے ایک تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔
این سی اے نے بتایا تھا کہ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے ایک فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کررہے ہیں۔
اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی ملزم کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔
اس حوالے سے 2019 میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔
ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات بھی رازداری میں رکھی گئی تھیں اور این سی اے کے بعد حکومتِ پاکستان نے بھی عوام یا میڈیا کو یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاستِ پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا تھا۔
نیب کا موقف؟
نیب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے غیر قانونی حصول اور تعمیرات سے متعلق ہے جس میں نیشنل کرائم ایجنسی، یو کے کے ذریعے بنیادی رقم (190 ملین برطانوی پاؤنڈز) کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ شامل ہے۔
نیب کے مطابق سابق معاون خصوصی برائے وزیرِاعظم شہزاد اکبر مذکورہ کیس میں ملوث کلیدی شخص تھے۔ وہ اور سابق وزیرِاعظم تصفیہ معاہدے سے متعلق حقائق، دستاویزات کو چھپا کر اپنی کابینہ کو گمراہ کرتے رہے تھے۔
رقم تصفیہ کے معاہدے (190 ملین برطانوی پاؤنڈز) کے تحت موصول ہوئی تھی اور قومی خزانے میں جمع ہونی تھی مگر اس کے برعکس رقم کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں ایڈجسٹ کیا گیا جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے 460 ارب روپے کی ادائیگی کے منصوبے کے خلاف نمٹا دیا تھا۔