فلسطینی گروپ حماس نے جمعرات کو کہا ہے کہ غزہ میں فائر بندی کی نئی تجاویز کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس کے بجائے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ وہ جولائی میں پیش کیے گئے فائربندی کے امریکی منصوبے پر رضامند ہو۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق غزہ میں فائربندی کے لیے امریکہ کی پہلی تجویز حماس نے قبول کی ہے لیکن اب توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری تعطل کو ختم کرنے کے لیے فائر بندی کی ایک نئی تجویز پیش کرے گا۔
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اس بات پر زور دے کر ایک معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل جنوبی غزہ میں فلاڈلفی کوریڈور سے دستبردار نہیں ہوگا۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم نتن یاہو کے جال اور چالوں میں پھنسنے کے خلاف متنبہ کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے عوام کے خلاف جارحیت کو طول دینے کے لیے مذاکرات کا استعمال کرتے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اس نے امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی دو جولائی کی تجویز قبول کر لی ہے۔
دوسری جانب دو امریکی حکام، دو مصری سکیورٹی ذرائع اور اس معاملے سے باخبر ایک عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ وائٹ ہاؤس غزہ میں فائر بندی اور حماس کے پاس موجود قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک نئی تجویز پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ نئی تجویز کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع میں سیز فائر کے لیے کئی ماہ سے جاری مذاکرات میں تعطل کی وجہ بننے والے اہم نکات پر کام کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بدھ کو نامہ نگاروں کو الگ سے بتایا کہ معاہدے کے زیادہ تر حصے پر اتفاق ہو چکا ہے، لیکن مذاکرات کار اب بھی دو اہم نکات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ مصر کی سرحد پر جنوبی غزہ میں بفر زون فلاڈیلفی کوریڈور میں فوج رکھی جائے اور مخصوص افراد کو اسرائیل میں حماس کے پاس موجود قیدیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے میں شامل کیا جائے گا۔
پہلے امریکی عہدیدار نے کہا کہ معاہدے کا نیا مسودہ اگلے ہفتے یا اس سے بھی پہلے تیار کیا جا سکتا ہے۔ ’لگتا ہے کہ وقت ختم ہو گیا ہے۔ اگر آپ اس ہفتے کے آخر میں (نظر ثانی شدہ مسودہ) دیکھتے ہیں تو حیران نہ ہوں۔‘
انتظامیہ کے عہدیدار نے کہا کہ حماس کی جانب سے چھ قیدیوں کی موت، جن کی لاشیں ہفتے کے آخر میں اسرائیل کو واپس کر دی گئی تھیں، نے اس کوشش کو پیچیدہ بنا دیا۔
عہدیدار نے مزید کہا: ’ہم سب اس کی فوری ضرورت محسوس کرتے ہیں۔‘
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز اس مسودے پر کام کرنے والے سینیئر امریکی عہدیداروں کے ایک چھوٹے گروپ کے سربراہ ہیں، جس میں مشرق وسطیٰ کے لیے وائٹ ہاؤس کے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک اور وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن شامل ہیں۔
پہلے امریکی عہدیدار نے اس کوشش کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: ’مذاکرات کاروں کی طرف سے بہت مضبوط تاثر ہے کہ فائر بندی کا موقع ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔‘
امریکی عہدے دار نے مزید کہا کہ گذشتہ ماہ اینٹنی بلنکن کے خطے کے حالیہ دورے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے بعد سے ثالثوں نے ورکنگ لیول مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ مذاکرات جاری ہیں۔
مصری ذرائع نے بتایا کہ امریکہ ایک مشاورتی حکمت عملی سے ہٹ کر فریقین پر فائر بندی کا منصوبہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دونوں امریکی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ نظر ثانی شدہ منصوبہ حتمی فیصلہ نہیں ہوگا اور اگر یہ ناکام ہوجاتا ہے تو واشنگٹن فائر بندی کے لیے کام جاری رکھے گا۔
اسرائیل کی موجودگی
منگل کو پانچ عرب ممالک بشمول علاقائی طاقت سعودی عرب کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی نے بھی مصر کا ساتھ دیتے ہوئے اسرائیل کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا کہ وہ فلاڈیلفی کوریڈور میں اپنی فوج رکھے۔ بدھ کو ترکی نے بھی اسی طرح کا ایک بیان جاری کیا تھا۔
تین مرحلوں پر مشتمل اس معاہدے کے کچھ حصے جو دونوں فریق پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں، کے تحت اسرائیل کو معاہدے کے پہلے مرحلے میں غزہ کے تمام گنجان آباد علاقوں سے نکلنا ہوگا۔
سینیئر انتظامی عہدیدار نے کہا کہ موجودہ تنازعہ اس بات پر ہے کہ آیا یہ راہداری گنجان آباد علاقہ شمار ہوتی ہے یا نہیں، لہٰذا ہم بنیادی طور پر یہاں پہلے مرحلے کی بات کر رہے ہیں کہ اس کی تشکیل کیسی ہوگی۔‘
پہلے امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکی گروپ فلاڈیلفی کوریڈور کے ان علاقوں پر غور کر رہا ہے، جہاں سے اسرائیلی فوج کو نکلنا ہوگا اور ان علاقوں پر بھی جہاں وہ رہ سکتے ہیں۔
مذکرات سے آگاہ ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ پیر کو قطر میں ہونے والے مذاکرات میں موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا کی سربراہی میں ایک اسرائیلی وفد نے ثالثوں کو بتایا کہ اسرائیل فائر بندی کے پہلے 42 روزہ مرحلے کے بعد راہداری سے اپنی فوجیں واپس بلانے کو تیار ہے۔
تاہم چند گھنٹوں بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے مقبوضہ بیت المقدس میں ایک نیوز کانفرنس کی اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل فلاڈیلفی کوریڈور کا کنٹرول برقرار رکھے گا۔
نتن یاہو نے بدھ کو معاہدے کے پہلے مرحلے میں راہداری سے انخلا کو یکسر مسترد کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ اسرائیل اس کے بعد ہی مستقل فائر بندی پر رضامند ہوگا اگر اس بات کی ضمانت دی جائے کہ راہداری حماس کے لیے غزہ میں ہتھیاروں اور رسد کی سمگلنگ کے راستے کے طور پر استعمال نہیں ہوگی۔
معاملے سے آگاہ عہدیدار نے کہا کہ ’اس نے ثالثی کرنے والی جماعتوں کو مشکل صورت حال میں ڈال دیا ہے۔ اگر اسرائیل فلاڈیلفی کوریڈور میں رہتا ہے تو نہ تو مصر اور نہ ہی حماس کسی معاہدے پر راضی ہوں گے۔‘
نتن یاہو کے دفتر نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سینیئر حماس عہدیدار عزت الرشق نے بدھ کو روئٹرز کو بتایا کہ گروپ ایک نئی تجویز پر غور کرے گا، جو ’مزاحمت کے مطالبات اور ہمارے عوام کے مطالبات پورے کرے گی۔‘ تاہم انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ نئی تجاویز کی ضرورت نہیں ہے اور نتن یاہو پر معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کا الزام لگایا۔
اسرائیل نے مئی میں فلاڈلفی کوریڈور کا کنٹرول یہ کہتے ہوئے اپنے قبضے میں لے لیا تھا کہ حماس اسے ہتھیاروں اور ممنوعہ مواد کو غزہ کی سرنگوں میں سمگل کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔
اسرائیلی پیش قدمی کے نتیجے میں رفح کراسنگ کو بند کردیا گیا، غزہ میں داخل ہونے والی انسانی امداد میں کمی واقع ہوئی اور ممکنہ طور پر مصر کو غزہ میں داخل ہونے والی واحد سرحدی گزرگاہ تک رسائی سے محروم کر دیا گیا، جو براہ راست اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
مصر کا کہنا ہے کہ غزہ میں سمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والی سرنگوں کو بند یا تباہ کر دیا گیا ہے، رفح میں فلسطینیوں کی موجودگی بحال کی جانی چاہیے اور 1979 کے مصر اسرائیل امن معاہدے کے تحت فلاڈلفی کوریڈور بفر زون کی ضمانت دی گئی ہے۔
11 ماہ سے جاری یہ تنازع سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا تھا جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1200 افراد مارے گئے اور 250 کے قریب کو قیدی بنا لیا گیا۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں تقریباً 41 ہزار فلسطینی جان سے جا چکے ہیں اور بڑے پیمانے پر ساحلی علاقے کو مسمار کر دیا گیا ہے، جس سے اس کے 23 لاکھ افراد میں سے زیادہ تر بے گھر ہو گئے ہیں اور انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔