دنیا کو غزہ کی مشکلات دکھانے والے فلسطینی ٹک ٹاکر کی اسرائیلی حملے میں موت

حليمي کی ویڈیوز نے دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کی توجہ حاصل کی۔ ان کی بنائی ویڈیوز وائرل ہوئیں اور ٹک ٹاک پر بعض ویڈیوز کو 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بھی دیکھا۔

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران جان سے جانے والے فلسطینی ٹک ٹاک سٹار محمد حليمي کے لیے ’خیمے کی زندگی‘ کا ہر دن ایک جیسا تھا۔

میدو حليمي کے نام سے مشہور ٹک ٹاکر نے زیادہ تر غزہ میں مشکل حالات زندگی کے بارے میں ویڈیوز بنائیں۔ وہ پیر کو مقامی انٹرنیٹ کیفے میں گئے جو دراصل ایک خیمے پر مشتمل تھا جہاں وائی فائی کی سہولت تھی۔

بے گھر ہونے والے فلسطینی یہاں بیرونی دنیا سے رابطہ کرتے ہیں۔ حليمي کے یہاں آنے کا مقصد اپنے دوست اور معاون طلال مراد سے ملاقات کرنا تھا۔ دونوں سیلفی لی۔

حليمي نے یہ تصویر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرتے ہوئے اس کے نیچے ’بالاخر ملاقات ہو گئی‘ کے الفاظ درج کیے اور دوست کے ساتھ گپ شپ شروع کر دی۔

18 سالہ طلال مراد نے بتایا کہ اچانک روشنی پھیل گئی۔ زوردار دھماکہ ہوا۔ مراد کو گردن میں درد محسوس ہوا اور حليمي کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔

ان کے سامنے ساحلی سڑک پر ایک کار آگ کی لپیٹ میں تھی، جو بظاہر اسرائیلی فضائی حملے کا ہدف تھی۔ ایمبولینس آنے میں 10 منٹ لگے اور چند گھنٹے کے بعد ڈاکٹروں نے حليمي کو مردہ قرار دے دیا۔

اسرائیلی حملے کے نتیجے میں لگنے والے زخموں سے صحت یاب ہوتے اور اسرائیلی حملے کے اثرات سے باہر آتے مراد نے جمعے کو کہا کہ ’انہوں (حليمي) نے پیغام دیا۔ انہوں نے امید اور طاقت کا اظہار کیا۔‘

دوسری جانب اسرائیلی فوج کا موقف ہے کہ اسے اس حملے کا علم نہیں جس میں حليمي کی جان گئی۔

امریکی ریاست ٹیکسس کے علاقے ہارکر ہائٹس سے تعلق رکھنے والے دور دراز کے دوستوں کی جانب سے حليمي کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا جہاں انہوں نے 2021 میں امریکی محکمہ خارجہ کے زیر اہتمام ایکسچینج پروگرام کے حصے کے طور پر ایک سال گزارا تھا۔

ماضی میں کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج اینڈ سٹڈی پروگرام میں حصہ لینے والے اور رابطہ کار حبا السیدی نے لکھا: ’میدو بھرپور زندگی گزار رہے جس میں مزاح اور شفقت تھی۔

’ان تمام باتوں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے زندگی میں آگے بڑھنا تھا لیکن وہ بہت جلدی چلے گئے۔‘

حليمي کی موت سے سوشل میڈیا صارفین میں بھی غم کی لہر دوڑ گئی۔ ان کے فالوورز نے صدمے اور غم کا اظہار کیا جیسے انہوں نے بھی ایک قریبی دوست کو کھو دیا ہو۔

حليمي کے دوست مراد کے مطابق: ’ہم نے مل کر کام کیا۔ یہ ایک طرح کی مزاحمت ہے جو مجھے امید ہے کہ جاری رہے گی۔‘

حليمي اور مراد انسٹاگرام پر ’غزہ میں رہنے والوں کے تجربات‘ کے نام سے اکاؤنٹ چلاتے تھے جہاں وہ دنیا بھر کے فالورز کو اسرائیل کے زیر محاصرہ علاقے میں ان کی زندگی کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دیتے تھے۔ اس علاقے میں غیر ملکی صحافیوں کو رسائی حاصل نہیں۔

حليمي نے اپنے والدین، چار بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ جنوبی ساحلی علاقے المواصی میں پناہ لینے کے بعد اپنا ٹک ٹاک اکاؤنٹ شروع کیا۔

اسرائیل نے المواصی کیمپ کو انسانی بنیادوں پر محفوظ علاقہ قرار دے رکھا ہے۔

حليمي کا خاندان غزہ شہر پر اسرائیل کے حملے کے بعد جنوبی شہر خان یونس چلا گیا جس کے بعد وہ بمباری سے بچتے ہوئے گرد آلود کیمپ میں منتقل ہو گیا۔

حليمي کے 19 سالہ دوست حلمی ہریز کا کہنا ہے کہ حليمي کا کام ’حیرت کا سبب تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزہ میں کیمرے پر اپنی زندگی کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے دور دور کے لوگوں تک رسائی حاصل کی جس سے انتہائی پریشان کن صورت حال سامنے آئی جو جنگ کے بارے میں خبروں کی کوریج سے بڑی حد تک باہر ہے۔

پناہ گزینوں کے پھیلتے ہوئے کیمپ میں ’خیمے کی زندگی‘ کے عنوان سے بنائی گئی ویڈیوز انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ سوچتے ہیں کہ خیمے میں زندگی حقیقت میں کیسی ہوتی ہے تو میرے ساتھ آئیں میں آپ کو دکھاتا ہوں کہ میرا دن کیسے کٹتا ہے۔‘

انہوں نے اپنی حالات زندگی پر ویڈیوز بنائیں جن میں پینے کا پانی لینے کے لیے طویل قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مگ کی مدد سے نہانا کیسا تجربہ ہے۔ (بلاشبہ سیمپو یا صابن دستیاب نہیں ہوتا۔)

ان کی ایک ویڈیو میں لوگ بابا گنوش نامی مشرق وسطیٰ کی لذیذ ڈش تیار کرنے کے لیے اس کے لوازمات اکٹھے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

 حليمي کی ویڈیوز نے دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کی توجہ حاصل کی۔ ان کی بنائی ویڈیوز وائرل ہوئیں اور ٹک ٹاک پر بعض ویڈیوز کو 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے بھی دیکھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا