غزہ: ہمارے انسانیت کے بنیادی احساس کو کیا ہو گیا ہے، یو این کارکن

اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے ادارے کی سربراہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور انسانی امداد کی کوششوں میں رکاوٹوں پر افسوس کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا: ’ہماری بنیادی انسانیت کا کیا حال ہو گیا ہے؟‘

29 اگست 2024 کو قائم مقام انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور اور ہنگامی امداد کوآرڈینیٹر جوائس مسویا اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں فلسطین کے سوال سمیت مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کر رہی ہیں (مائیکل ایم سینٹیاگو/ گیٹی امیجز نارتھ امریکہ/ گیٹی امیجز بذریعہ اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے ادارے (او سی ایچ اے) کی قائم مقام سربراہ جوئس مسویا نے جمعرات کو غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور انسانی  امداد کی کوششوں میں پیش آنے والی رکاوٹوں پر افسوس کا اظہار کیا، اور سوال اٹھایا: ’ہماری بنیادی انسانیت کا کیا حال ہو گیا ہے؟‘

فرانسیسی خبررساں ایجنسی( اے ایف پی) کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’ہم 24 گھنٹے سے زیادہ پہلے منصوبہ بندی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں یہ جاننے میں مشکلات کا سامنا ہے کہ ہمارے پاس کیا رسد ہو گی، وہ کب ہمارے پاس ہوگی یا ہم کہاں پہنچا سکیں گے۔

انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ’شہری بھوکے ہیں۔ وہ پیاسے ہیں وہ بیمار ہیں۔ وہ بے گھر ہیں۔ انہیں اس سے بھی آگے دھکیل دیا گیا ہے... جو کوئی بھی انسان برداشت کر سکتا ہے۔‘

جوئس مسویا کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب اقوام متحدہ کو پیر کو غزہ کے اندر امداد اور امدادی کارکنوں کی نقل و حرکت روکنی پڑی تھی، کیوں کہ اسرائیل نے دیر البلاح کے علاقے سے انخلا کا کہا تھا جو کہ یو این کارکنوں کا مرکز تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’غزہ کا 88 فیصد سے زیادہ علاقہ کسی نہ کسی وقت خالی کرنے کے (اسرائیلی) حکم نامے کے تحت آ چکا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ’غیر یقینی صورت حال‘ کا شکار شہریوں کو غزہ کی پٹی کے صرف 11 فیصد کے مساوی علاقے میں جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’انخلا کے احکامات بین الاقوامی انسانی قانون کے تقاضوں کی خلاف ورزی ہیں۔‘

فلسطینی گروپ حماس کے خلاف اسرائیل کی لڑائی میں شہریوں کی اموات میں اضافے کی وجہ سے بڑھتی تنقید کی زد میں ہے، لیکن امریکہ سمیت بین الاقوامی طاقتیں اب تک فائر بندی پر بات چیت میں مدد کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

حالیہ لڑائی سات اکتوبر کو شروع ہوئی تھی جب جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے نتیجے میں 1،199 افراد مارے گئے۔ 

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس وقت کے بعد سے اسرائیل جارحیت میں غزہ کے اندر کم از کم 40 ہزار 602 افراد جان سے گئے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ غزہ کے اندر مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

جوئس مسویا نے کہا کہ ’جو کچھ ہم نے پچھلے 11 مہینوں میں دیکھا ہے، وہ اس بات پر سوال اٹھاتا ہے کہ دنیا کتنی سنجیدہ ہے اس بین الاقوامی قانون کے نظام کی پاسداری میں، جو ان جیسے سانحات کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔‘
یہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے: ہماری بنیادی انسانیت کہاں چلی گئی ہے؟ 

انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے جارحیت کو ختم کرے اور جوئس مسویا قیدیوں کی رہائی اور ’غزہ میں مستقل فائربندی‘ پر بھی زور دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا