ہوائی اڈوں کے قریب سے پرندے کیسے ہٹائے جاتے ہیں؟

پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی کے ترجمان سیف اللہ کے مطابق: ’ایئر پورٹ اتھارٹی ہر حد تک جاتی ہے کہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں مگر ایسے واقعات کے رونما ہونے میں کئی ایسے پیچیدہ عناصر شامل ہیں، جن پر قابو پانے کا عمل ایک مسلسل جنگ کی سی صورت اختیار کر چکا ہے۔‘

پاکستان کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پاکستانی اور غیر ملکی فضائی کمپنی کے ہوائی جہاز موجود ہیں۔ یہ تصویر 19 مئی 2007 کو لی گئی ہے جس میں ایئرپورٹ کا رن وے نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں حال ہی میں ہوائی جہاز سے پرندوں کے ٹکرانے کے واقعات پیش آئے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں مختلف ہوائی اڈوں کے اطراف فضا میں پرندوں کے مسافر ہوائی جہازوں سے ٹکرانے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے پروازوں میں خلل کی شکایات عام ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ دو روز قبل لاہور سے کراچی جانے والی ایک نجی ایئر لائن کی  پرواز کے ساتھ بھی پیش آیا جس نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے اڑان بھری تو فضا میں  کچھ ہی لمحوں  کے بعد جہاز کے انجن سے ایک پرندہ ٹکرا گیا۔

ہوائی اڈے انتظامیہ کے مطابق جہاز کے ایک انجن کو نقصان پہنچا لیکن ہوا باز جہاز کو واپس موڑ کر ہوائی اڈے پر ہنگامی لینڈنگ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

ستمبر2022 میں ضلعی انتظامیہ لاہور نے ایئر پورٹ کے پانچ کلو میٹر کے دائرے میں دفعہ 144 نافذ کر کے علاقے میں موجود گھروں پر بنائی گئی کبوتروں کی اٹاریوں کو ہٹانے کا کام کیا تھا۔

اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنرلاہور چھاؤنی ذیشان ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’ایئر پورٹ کے ارد گرد کے علاقے میں بنے ریستوران اور شادی ہال بھی پرندوں کے اکٹھے ہونے کا سبب بنتے ہیں کیونکہ وہاں بچا ہوا کھانا اکثر ہوٹل کی چھت پر پھینک دیا جاتا ہے۔‘

لاہور ایئر پورٹ کے مینیجر چوہدری نذیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ 2022 ستمبر تک لاہور ایئرپورٹ پر 29 بار مختلف ایئر لائنز کے جہازوں سے مختلف پرندے ٹکرانے کے واقعات سامنے آئے تھے۔

تنویر محمد بھی ایئر پورٹ کے قریب واقع ساج پال گاؤں کے رہائشی ہیں اور کبوتر پالنے کے شوقین بھی ہیں۔

تنویر نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک دو سال پہلے سختی ہوئی تھی ہم نے بھی اٹاریاں ہٹا دیں تھیں لیکن پھر کچھ دن کے بعد ہی میں نے تو اپنے کبوتر واپس رکھ لیے۔‘

تنویر کے مطابق مسئلہ کبوتروں کا نہیں بلکہ بڑی چیلوں کا ہے جو علاقے میں پھیلی گندگی اور جو لوگ گھروں کی چھتوں پر کھانا ڈالتے ہیں اس کی وجہ سے اس علاقے میں بڑی بڑی چیلیں دکھائی دیتی ہیں۔

’میرے تو ایک دو کبوتر بھی چیلیں لے اڑیں اور وہ میری چھت پر بھی آتی ہیں کبوتروں کو ڈالا ہوا کھانا کھانے کے لیے۔‘

علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے مینجر چوہدری نذیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایئر پورٹ انتظامیہ پرندوں کے جہازوں سے ٹکرانے کے واقعات کے خلاف جارحانہ انداز میں کام کر رہی ہے ’یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس سال خاص طور پر اس سلسلے میں کافی بہتری حاصل کی ہے۔

’ہم نے اس کام کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، پہلا ہوائی اڈے کی باڑ کے اندر ہے جہاں ہم فائر کریکر، کیریز، ڈراؤ کوّے، عکاس سی ڈیز، پریشر ہارن وغیرہ کو منٹ منٹ کی بنیاد پر تین مخصوص گاڑیوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں جو ہرجہاز آنے سے پہلے علاقے کا معائنہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد کنٹرول ٹاور جہاز کو ٹیک آف یا لینڈنگ کلیئرنس دیتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایئر پورٹ کی باڑ سے باہر کے علاقے (تقریباً 13 کلومیٹر) کے لیے ہم متعلقہ سرکاری ایجنسیوں پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے کو اس طرح رکھیں جس سے پرندے اپنی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس سلسلے میں ہم روزانہ کی بنیاد پر ماہانہ میٹنگز کے ساتھ ان کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک لاہور کا تعلق ہے رواں سال جہازوں سے پرندے ٹکرانے کے جتنے بھی واقعات ہوئے ان میں سے  60 فیصد سے زیادہ پرندوں کے حملے ہوائی اڈے کی باڑ سے باہر ہوئے ہیں۔

پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی کے ترجمان سیف اللہ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ایئر پورٹ اتھارٹی ہر حد تک جاتی ہے کہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں مگر ایسے واقعات کے رونما ہونے میں کئی ایسے پیچیدہ عناصر شامل ہیں، جن پر قابو پانے کا عمل ایک مسلسل جنگ کی سی صورت اختیار کر چکا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایئرپورٹ پر ماحولیاتی کنٹرول کمیٹیاں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ضلعی انتظامیہ کو بتاتی ہیں کہ کہاں کہاں صفائی ہوئی تھی اور پھر گند پڑ گیا ہے۔ یہ لوگ باہر بھہ نکلتے ہیں اور لوگوں سے بھی بات کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مون سون، عید وغیرہ پر ایئر پورٹ کے اندر اور باہر ایک بھرپور مہم چلائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود  ہمیں پیک ٹائم صبح پانچ سے آٹھ بجے تک فلائٹ آپریشن روکنا پڑتا ہے اور اس وقت آنے والی فلائٹس کو ایئرلائن کو بتا کر کہیں اور بھیجا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ایئر پورٹ اور اسلام آباد ایئر پورٹ میں گیس کینن اور مقامی طور پر تیار کردہ پریڈیٹر/ڈسٹریس کال سسٹم تعینات ہے۔

’رن وے کے ساتھ سکیئر کروز تعینات ہیں۔ برڈ کنٹرولر کے ساتھ پورے ایئر سائیڈ ایریا کا باقاعدہ گشت کیا جاتا ہے۔ عوامی بیداری کی مہمات، یعنی بروشرز، بینرز، اعلانات، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مہمات وغیرہ بھی اسی مہم کا حصہ ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ میں ڈپٹی کمشنر لاہور اور اسسٹنٹ کمشنر لاہور چھاؤنی سے بھی متعددبار رابطہ کیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ڈپٹی کمشنر لاہور کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے چیک کریں گے کہ وہاں کیا صورت حال ہے اس کے بعد وہ بتائیں گے لیکن اس کے بعد انہوں نے بھی خبر چھپنے تک اپنا کوئی موقف نہیں دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان