پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور موسموں کی شدت میں اضافے اور بڑھتے درجہ حرارت کے باعث پاکستان میں واقع گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو رہا ہے۔
رواں برس بھی پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں معمول کی برف باری تین ماہ دیر سے شروع ہوئی اور ہیٹ ویو نے قراقرم ریجن میں پھیلے بڑے گلیشیئرز کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
دنیا میں قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد پاکستان کے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ اور بڑے گلیشیئرز پائے جاتے ہیں جن میں قراقرم ریجن کا دوسرا سب سے بڑا گلیشیئر، بالتورو جس کی لمبائی 63 کلو میٹر ہے، بھی شامل ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ مونا خان نے 12 دن بالتورو گلیشیئر پر پیدل ٹریک کیا ہے جس دوران گلیشیئر کی بدلتی اور پگھلتی صورت حال کو دیکھا اور عکس بند کیا گیا۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث بالتورو گلیشیئر پر 25 سے 30 چھوٹی بڑی جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں جو برف کے پگھلنے کی وجہ سے بنی ہیں۔
اس کے علاوہ برف کے بڑے تودے بھی پگھلاؤ کے عمل سے گزرتے ہوئے غاروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
بالتورو گلیشیئر جو ایک سخت چٹان کی مانند تھا جس کی سطح کو آج تک کوئی جانچ نہ سکا اب یہ کٹاؤ کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال آنے والے دس سالوں میں مزید پریشان کن ہو سکتی ہے جس کا سدباب بہت ضروری ہے۔
گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے پہاڑی علاقوں میں گذشتہ تین برسوں سے سیلاب آنا بھی معمول بن چکا ہے۔ 2022 کا سیلاب جو شمالی علاقوں سے شروع ہوا اس نے پاکستان بھر میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان بھی کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گلگت اور ہنزہ کے گلیشیئر بھی سطح سمندر سے اونچائی کم ہونے کے باعث پگھلنے کے خطرے کی قریب ہیں۔
جبکہ بالتورو گلیشیئر کے قریب پیجو کیمپ سائٹ کے سامنے پیجو پہاڑ جن کی چوٹیاں سارا سال برف سے ڈھکی رہتی تھیں تاہم اب مقامی افراد کے مطابق گذشتہ دو تین برسوں سے گرمیوں کے مہینے میں ان چوٹیوں کی برف بھی پگھل جاتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے ماہر آصف شجاع نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اوسطاً گلوبل درجہ حرارت 1.5 کے حساب سے بڑھ رہا ہے اور اگر یہ اوسطاً دو درجہ حرارت تک بڑھ گیا تو بہت تباہی آئے گی گلیشیرز پگھلیں گے، سیلاب کا سبب بنیں گے۔
’سمندر بھر جائیں گے جس کی وجہ سے ساحلی علاقے ختم ہو سکتے ہیں، کھانے کی قلت بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک رضاکارانہ طور پر گلوبل درجہ حرارت پر قابو پانے کی کوشش کریں۔‘