پاکستان نے باضابطہ طور پر انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے جس کی میزبانی اسلام آباد اس سال 15-16 اکتوبر کو کرے گا۔
اگرچہ نئی دہلی کے باضابطہ جواب کا انتظار کیا جا رہا ہے لیکن غیر رسمی اشارے بتاتے ہیں کہ مودی اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ مودی کی عدم موجودگی دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ میں کمی کا امکان ختم کر دے گی۔
انڈیا ایس سی او کا رکن ہے لیکن امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے اتحادی تعلقات اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے انڈیا کی تنظیم میں دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔
انڈیا کو تنظیم میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی تشویش ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مغربی اتحادی تنظیم میں توسیع سے پریشان ہیں، خاص طور پر ایران اور بیلاروس کے مستقل رکن بننے کے بعد۔
تاہم مودی کی شرکت اور انڈین میڈیا میں گذشتہ ہفتے کی قیاس آرائیوں کے پیش نظر، انڈیا کے وزارتِ خارجہ نے مقامی میڈیا کو ایڈوائزری جاری کی جس میں کہا گیا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں چل رہی ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان میں ہونے والے ایس سی او کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے یا وزیر خارجہ پاکستان میں ایس سی او اجلاس میں شرکت کریں گے۔ براہ کرم نوٹ کیا جائے کہ وزارتِ خارجہ نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور درخواست ہے کہ اس حوالے سے قیاس آرائی پر مبنی خبروں سے گریز کیا جائے۔‘
پاکستان کئی مواقع پر عندیہ دے چکا ہے کہ کم از کم باہمی سطح پر ہی سہی وفود کا تبادلہ اور تعاون بحال ہونا چاہیے۔
اس کے برعکس انڈیا ’دہشت گردی‘ کا راگ الاپتے ہوئے پاکستان کی طرف سے مبینہ ’دہشت گرد‘ سرگرمیوں کی حمایت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا عمل بحال کرنے سے انکاری ہے۔
مئی 2023 میں اس وقت کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایس سی او وزرائے خارجہ کونسل کے دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا کا دورہ کیا۔
اجلاس کے دوران انہوں نے اور ان کے انڈین ہم منصب نے اپنے بیانات میں ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیے۔
انڈیا نے چار جولائی 2023 کو ایس سی او کے سربراہانِ مملکت کی آن لائن ہونے والی کانفرنس کی میزبانی کی۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے انڈیا کے معاندانہ رویے کے باوجود کانفرنس میں شرکت کی۔
یہ عمل اسلام آباد کی نئی دہلی کے ساتھ رابطے پر آمادگی کو ظاہر کرتا ہے حالاں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پلوامہ حملے اور 2019 میں انڈین آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے برقرار ہے۔
انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت انڈیا کے زیر انتظام کشمیریوں کو محدود خود مختاری حاصل تھی۔ نئی دہلی نے دفعہ 35 اے بھی ختم کر دی جو متنازع علاقے میں غیر مقامی افراد کو جائیداد خریدنے سے روکتی تھی۔ اس کارروائی کا مقصد علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔
انتڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین فوجیوں کی بڑھتی ہوئی اموات نے مودی حکومت کو مایوس کر دیا ہے۔
نئی دہلی نے 18 ستمبر سے یکم اکتوبر تک ریاستی اسمبلی انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں تشدد میں اضافہ ہوگا۔ تشدد میں اضافے کی بنیادی وجہ جاننے کے باوجود وزیرِ اعظم مودی اور ان کی کابینہ کے ارکان پاکستان پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’دہشت گردی‘ کی معاونت کا الزام لگاتے ہیں۔
تعطل ختم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے سے کشمیریوں کے خلاف مودی کی اپنی ریاستی دہشت گردی کمزور ہو جائے گی اور ’پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی‘ کے ان کے دعوے پر سمجھوتہ ہو جائے گا۔
انڈیا نے پاکستان کو نظرانداز کرنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے جس سے یہ تاثر دینا ہے کہ وہ اپنے مغربی ہمسائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ گذشتہ ہفتے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ انڈیا موجودہ صورت حال کے برقرار رہنے، یعنی تعطل سے مطمئن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میری رائے میں، پاکستان کے ساتھ بلا تعطل بات چیت کا دور ختم ہو چکا۔ اقدامات کے نتائج ہوتے ہیں، اور جموں و کشمیر کے معاملے میں، میرے خیال میں دفعہ 370 کا قصہ ختم ہو چکا ہے۔‘
وہ 2004 سے 2008 تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان تسلسل کے ساتھ بات چیت کا ذکر کر رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو طرفہ معاملات سے خود کو الگ کرنا اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں یک طرفہ اقدامات حقیقت کو تبدیل کر سکتے اور نہ کریں گے۔
کشمیر کا تنازع انڈیا کو اس وقت تک پریشان کرتا رہے گا جب تک کہ اس کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تلاش نہیں کر لیا جاتا۔
یکم ستمبر کو پاکستان نے ایک بار پھر کہا کہ ’جموں و کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازع ہے جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔‘
یوں، اسلام آباد کشمیر کے مسئلے پر نئی دہلی کو راضی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تاکہ بات چیت کا عمل دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
انڈیا کا حکمران طبقہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے چین سے ایک بڑا خطرہ درپیش ہے اور اس کی جانب سے فوج تعینات کرنے کا مقصد چین کو روکنا ہے لیکن اس کی مسلح افواج کی تعیناتی اور فوجی قیادت کی توجہ بڑی حد تک پاکستان کی سرحد کے ساتھ مرکوز ہے۔
مثال کے طور پر 2023 کے انٹر سروسز آرگنائزیشن بل سے انکشاف ہوا ہے کہ انڈیا 2025 تک تین فوجی کمانڈ سینٹر قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پہلا سینٹر راجستھان کے شہر جے پور میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔
پاکستان اور انڈیا کے تعلقات ہمیشہ مسائل کا شکار رہے ہیں لیکن 2014 میں مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے یہ تعلقات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ فی الحال مودی ’ہمسایہ ممالک سب سے پہلے لیکن مائنس پاکستان‘ پالیسی کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے سے مستقبل قریب میں اسلام آباد اور دہلی کے درمیان تعطل برقرار رہے گا۔
ڈاکٹر ظفر نواز جسپال اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں اور قائد اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں پروفیسر ہیں۔
یہ تحریر اس سے قبل عرب نیوز پاکستان پر شائع ہوئی تھی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔