ریپبلکنز کی افغانستان سے انخلا پر رپورٹ میں بائیڈن پر تنقید

ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کی رپورٹ میں بائیڈن پر تنقید کی گئی کہ وہ انخلا کے ’فیصلے کے ممکنہ (نقصان دہ) نتائج کو کم کرنے‘ میں ناکام رہے۔

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سابق چیئرمین جنرل مارک ملی اور سینٹرل کمانڈ  کے سابق کمانڈر جنرل کینتھ ایف میک کینزی جونیئر 19 مارچ 2024 کو ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی میں 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بارے میں سماعت میں سوالوں کا جواب دے رہے ہیں، اسی سماعت کے بعد اتوار کو انخلا کے بارے میں رپورٹ جاری کی گئی جس میں ریپبلکنز نے بائیڈن پر سخت تنقید کی ہے (اے ایف پی)  

ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی نے امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے 2021 کے فوجی انخلا کے بارے میں رپورٹ جاری کی ہے جس میں امریکہ کی طویل ترین جنگ کے افراتفری پر خاتمے پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں امریکی فوج کے افغانستان سے عجلت میں کیے گئے اس انخلا پر ریپبلکنز نے تنقید کو دہرایا جس کے بعد کابل ہوائی اڈے پر ایک خودکش بم دھماکے میں 13 امریکی فوجی مارے گئے اور طالبان کی جانب سے دارالحکومت پر فوری طور پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا تھا۔

ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی میں ریپبلکنز کی طرف سے تحریر کردہ رپورٹ میں بائیڈن پر تنقید کی گئی کہ وہ انخلا کے ’فیصلے کے ممکنہ (نقصان دہ) نتائج کو کم کرنے‘ میں ناکام رہے۔

ریپبلکنز نے فوجی رہنماؤں کی طرف سے مشترکہ خدشات کی طرف اشارہ کیا جس میں انہوں نے نائن الیون حملوں کے بعد شروع کی گئی جنگ کو جاری رکھتے ہوئے افغانستان میں اپنی فوجیں رکھنے کی سفارش کی تھی۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ رپورٹ ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین مائیکل میکول کی قیادت میں تین سالہ تحقیقات کے بعد اخذ کی گئی ہے۔

 رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے غیر فوجی عملے کو نکالنے کا اپنا فیصلہ بہت تاخیر سے کیا اور 16 اگست کو باضابطہ طور پر اس کا حکم دیا، انتظامیہ واشنگٹن میں محکموں اور افغانستان میں حکام کے درمیان بات چیت کرنے میں ناکام رہی اور افغان شہریوں کی روانگی کے لیے کاغذی کارروائی کو بھی صحیح طریقے اور وقت پر انجام نہیں دیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ کو اس وقت شدید نقصان پہنچا جب ہم نے اپنے افغان اتحادیوں کو طالبان کی انتقامی کارروائیوں کے لیے چھوڑ دیا اور ان افغان شہریوں کو بھی جن کے تحفظ کا ہم نے وعدہ کیا تھا۔‘

اے ایف پی کے مطابق ڈیموکریٹس نے اس رپورٹ کی اشاعت کے وقت کو امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات کو متاثر کرنے کی کوشش قرار دیا۔

ٹرانپسورٹیشن کے وزیر پیٹ بٹگیگ نے ہفتے کو رپورٹ کے اجرا سے قبل کہا: ’اگر ان کے پاس (افغانستان سے انخلا کے بارے میں) اندازہ لگانے کے لیے تین سال تھے تو وہ صدارتی انتخابات کے سال میں لیبر ڈے کے بعد یہ رپورٹ کیوں پیش کر رہے ہیں؟‘

انہوں نے سی این این کو بتایا کہ یہ بائیڈن انتظامیہ نے یہ فیصلہ تھا کہ اس جنگ کو پانچویں صدر کو وراثت میں نہ جانے دیا جائے اور اس جنگ کو ختم کیا جائے۔

ہاؤس ریپبلکنز نے الزام لگایا کہ ’تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا بائیڈن کا فیصلہ سلامتی کی صورت حال، دوحہ معاہدے یا اپنے سینیئر قومی سلامتی کے مشیروں یا ہمارے اتحادیوں کے مشورے پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ ان کی دیرینہ اور غیر متزلزل رائے پر مبنی تھا کہ امریکہ کو اب افغانستان میں نہیں رہنا چاہیے۔‘

دوحہ معاہدہ

دوحہ معاہدے پر 29 فروری 2020 کو ٹرمپ کی قیادت میں طالبان اور امریکہ کے درمیان دستخط ہوئے تھے جس نے جنگ سے متاثرہ ملک سے امریکی انخلا کی راہ ہموار کی لیکن افغانستان کی منتخب حکومت کو اس معاہدے سے باہر رکھا۔

بائیڈن کو کابل میں عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے جیسی شرائط پر طالبان کو پابند بنائے بغیر دوحہ میں طے پانے والے انخلا کو آگے بڑھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کے بجائے امریکہ کے انخلا تک کئی مہینوں میں طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی فوجیوں کے ملک چھوڑنے کے چند دنوں کے اندر ہی کابل طالبان کے قبضے میں چلا گیا جو ایک ایسی صورت حال تھی جس کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے قومی سلامتی کے لیے خطرات بڑھ گئے اور آنے والے برسوں کے لیے ہمارے ریکارڈ کو داغدار کر دیا ہے اور پوری دنیا میں دشمنوں کی حوصلہ افزائی کی۔

ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ انخلا امریکی عوام میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے بڑھتے ہوئے اتفاق رائے کی عکاسی کرتا ہے اور یہ کہ طالبان کے ساتھ ٹرمپ کے معاہدے کی وجہ سے اس کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

ہاؤس کی رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے نومبر کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران فوج کی ناراضگی مول لے لی۔

واشنگٹن کے قریب فوجی قبرستان کے حالیہ دورے کے دوران ریپبلکن امیدوار نے سیاسی مقاصد کے لیے وہاں فوٹو گرافی پر پابندی کے اصولوں کو توڑا اور افغانستان میں مارے گئے امریکی فوجیوں کے رشتہ داروں کے ساتھ تصویریں بنوائیں جسے بعد میں ان کی انتخابی مہم نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔

ان کی حریف ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیریس نے ٹرمپ کو ’مقدس زمین کی توہین‘ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

افغان جنگ میں ہونے والا جانی نقصان

روئٹرز کے مطابق 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملے کے بعد تقریباً آٹھ لاکھ امریکی فوجیوں نے افغانستان میں خدمات انجام دیں۔

جنگ کے دوران 2,238 امریکی فوجی مارے گئے اور 21 ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔

آزاد تحقیق کے مطابق اس جنگ میں مارے جانے والے افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ