بلوچستان میں سکیورٹی کلیئرنس کے بعد ٹرینیں چلیں گی: ریلوے حکام

پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پل تباہ ہونے کے بعد سے اب تک پاکستان ریلویز کو 12 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔‘

28 اگست 2024 کی اس تصویر میں بلوچستان کے ضلع بولان میں ایک روز قبل بم دھماکے کے نتیجے میں منہدم ہونے والے ریلوے پل کے پاس مقامی لوگ کھڑے ہیں (بنارس خان / اے ایف پی)

پاکستان ریلوے کو بلوچستان میں دو ہفتے قبل ہونے والے شدت پسندی کے دوران تباہ ہونے والے ریلوے کے پل کی وجہ سے روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ صوبے میں دوبارہ ٹرینیں چلنے کا فیصلہ حکام کے مطابق سکیورٹی کلیئرنس ملنے کے بعد کیا جائے گا۔

صوبہ بلوچستان کے مختلف اضلاع خصوصاً بولان میں 25 اور 26 اگست 2024 کی درمیانی شب اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر پرتشدد واقعات ہوئے تھے جن میں 73 افراد جان سے گئے تھے جن میں عام شہری، سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور شدت پسند شامل تھے۔

ان پر تشدد واقعات میں تباہ ہونے والی نجی اور سرکاری املاک میں پاکستان ریلوے کا ایک پل بھی تباہ ہوا تھا جس کے باعث وہاں ٹرین آپریشن متاثر ہوئے تھے جو اب تک معطل ہیں۔

پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پل تباہ ہونے کے بعد سے اب تک پاکستان ریلویز کو 12 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ بلوچستان کے ضلع بولان سے دو سافر ٹرینیں ۔ بولان ایکسپریس اور جعفر ایکسپریس ۔ گزرتی ہیں جبکہ مال گاڑیا بھی وہاں جاتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’شدت پسندی کے واقع میں متاثر ہونے والا پل اور ریلوے ٹریک دو ہفتوں میں کلیئر ہو جائیں گے لیکن ٹرین اس علاقے میں کلیئرنس ملنے کی صورت میں ہی چلائی جا سکے گی۔‘

بابر رضا نے بتایا کہ ضلع بولان جانے والی دونوں ٹرینوں میں مجموعی طور پر تقریباً 2000 مسافروں کی گنجائش ہے، جس سے ہر ٹرین پاکستان ریلویز کو روزانہ کم از کم ایک کروڑ روپے کما کر دیتی ہے۔

’اب مسافر ہی نہیں ہیں تو وہ ایک کروڑروپے بھی نہیں آرہا اور یہ ہمیں نقصان ہو رہا ہے۔‘

بلوچستان کو جانے والی جعفر ایکسپریس لاہور سے کوئٹہ چلتی ہے جب کہ بولان ایکپریس کا روٹ کراچی سے کوئٹہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’اس وقت بڑا مسئلہ سب سے بڑے صوبے کا ملک کے دوسرے صوبوں سے ختا ہونا ہے، جو ہمارے لیے ایک تکلیف کی بات ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹریک کی بحالی کا کام شروع ہو چکا ہے جو دو ہفتوں میں مکمل ہو جائے گا لیکن ٹرین آپریشن تب ہی شروع ہو گا جب وہاں سکیورٹی کلیئرنس ملے گی۔‘

بابر رضا کے مطابق: ’وہاں موجود شدت پسندی کا عنصر یہ نہیں چاہتا کہ کچھ چلے اور ریلوے ایک ایسی چیز ہے جو عوام کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔

’ایک ہی ڈبے میں بلوچ، سندھی، پنجابی اور پختون سب بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس سے ہم آہنگی پیدا ہو تی ہے۔ ریلوے کا منقطع ہو جانا عوام کا ایک دوسرے سے منقطع ہو جانا ہے۔ ریلوے انجانے میں لوگوں کو آپس کی تلخیاں ختم کرنے میں مدد دیتی رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پالیسی میکرز کو بھی اس چیز کا خیال ہو گا کہ ایک رابطہ منقطع ہوا ہے تو اسے جلد از جلد بحال کرنا چاہیے۔

فریٹ ٹرین کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ بھی بلوچستان سے گزر کر تفتان تک جاتی ہے لیکن اس کی آمد و رفت پہلے سے ہی کافی کم ہے۔ ان میں کوئلہ اور دوسری اشیا جیسے چاول وغیرہ جاتا ہے، جب کہ یہ بھی منصوبہ تھا کہ ایران سے بھی چاول پاکستان آئے گا لیکن فی الحال یہاں فریٹ ٹرین آپریشن بھی متاثر ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان