جاپان میں صرف مردوں کی جانشینی بحران کا باعث

بڑھتی عمر اور سکڑتی ہوئی آبادی صرف جاپان کے شاہی خاندان کو ہی پریشان کرنے والا بحران نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

14 نومبر 2020 کو ٹوکیو کے محل میں لی گئی اس تصویر میں شاہی خاندان کو دیکھا جا سکتا ہے (امپیریل ہاؤس ہولڈ ایجنسی آف جاپان)

گذشتہ ہفتے 18 ویں سالگرہ منانے والے جاپان کے شہزادے ہساہیتو تقریباً چار دہائیوں میں بلوغت کو پہنچنے والے شاہی خاندان کے پہلے مرد بن گئے جس سے جاپانی قوم کو اپنا وجود قائم رکھنے میں پیش مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔ جاپان کو عمر رسیدہ آبادی اور شرح پیدائش میں کمی کا سامنا ہے۔

موجودہ 64 سالہ جاپانی شہنشاہ ناروہیتو کے بھتیجے شہزادہ ہساہیتو اپنے 17 رکنی شاہی خاندان کے سب سے چھوٹے رکن ہیں۔

شہزادہ ہساہیتو سمیت جاپانی شاہی خاندان میں صرف چار مرد شامل ہیں اور وہ اپنے والد ولی عہد شہزادہ اکیشینو کے بعد تخت کے دعویداروں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

58 سالہ ولی عہد شہزادہ اکیشینو 1985 میں بالغ ہونے والے خاندان کے آخری مرد رکن تھے۔ موجودہ شاہی قانون کے مطابق صرف مرد رکن ہی شہنشاہت کے اہل ہو سکتے ہیں۔

تخت نشینی کے لیے اہل ارکان میں شہنشاہ ناروہیتو کے چچا شہزادہ ہتاچی بھی شامل ہیں جن کی عمر 88 سال ہے لیکن وہ امیدواروں کی قطار میں تیسرے نمبر پر ہیں۔

شاہی قانون کے مطابق خواتین شہنشاہت کے لیے اہل نہیں ہو سکتیں بلکہ وہ عام افراد (شاہی خاندان سے باہر) سے شادی کرنے پر اپنی شاہی حیثیت بھی کھو دیتی ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جاپان میں شہنشاہ کی جانشینی پر اس طرح کی بحث ہو رہی ہوں۔ 2001 سے 2006 تک جاپانی پارلیمنٹ میں قانون میں ترمیم کرنے اور خواتین کو تخت کے لیے اہل قرار دینے کی اجازت دینے کے لیے کئی مباحثے ہوئے۔ اگر نیا قانون منظور ہو جاتا تو اس سے شہنشاہ ناروہیتو اور ملکہ ماساکو کی صاحبزادی 22 سالہ شہزادی ایکو کو تخت پر بیٹھنے کا موقع مل جاتا لیکن 2006 میں شہزادہ ہساہیتو کی پیدائش کے بعد اس بحث کو روک دیا گیا۔

جانشینی ہی صرف شاہی خاندان کا واحد مسٔلہ نہیں ہے بلکہ 60 سال سے زیادہ عمر کے کئی ارکان کے ساتھ سکولوں کا دورہ کرنے، سفیروں اور معززین سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ روایتی جاپانی تقریبات میں شرکت کرنے جیسے شاہی فرائض انجام دینے کے لیے انہیں نوجوانوں کی کمی کا سامنا ہے۔

رواں سال جون میں شہنشاہ ناروہیتو نے غیر معمولی طور پر عوامی سطح پر اس مسئلے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’شاہی خاندان میں مردوں کی تعداد کم ہو رہی ہے، ان کی عمریں زیادہ ہو رہی ہیں اور شاہی خاندان کی خواتین شادی کے بعد شاہی خاندان کو چھوڑ رہی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ان عوامل کی وجہ سے شاہی خاندان کے ارکان کی تعداد جو عوامی فرائض انجام دے سکتے ہیں، پہلے کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق شاہی خاندان کے مستقبل سے ہے لیکن میں (قانونی) نظام سے متعلق معاملات پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہوں گا۔‘

رواں سال مارچ اور اپریل میں مقامی نشریاتی ادارے کیودو نیوز کے ایک سروے کے مطابق 90 فیصد جاپانیوں نے کہا کہ وہ ایک خاتون شہنشاہ کے تصور کی حمایت کرتے ہیں اور 72 فیصد نے جانشینی کے استحکام کے بارے میں ’بحران‘ محسوس کرنے کے بارے میں رائے دی۔

ایک خاتون شہنشاہ کی بھرپور عوامی حمایت کے باوجود حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) بڑی حد تک اس تبدیلی کی مخالفت کرتی ہے۔ اس مسٗلے کے حل تلاش کرنے کے لیے بحثیں کی گئیں جن میں شہزادیوں کو (شاہی خاندان سے باہر) شادی کے بعد شاہی حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دینا اور خاندان کے ان رشتے داروں کو شاہی خاندان میں شامل کرنا شامل تھا جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی شاہی حیثیت کھو دی تھی۔ تاہم اس سے موجودہ مسئلے میں کوئی مدد نہیں ملتی کیونکہ ایل ڈی پی اپنے موقف پر قائم ہے کہ صرف خواتین کی بجائے ایک مرد کو ہی تخت نشین ہونا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بڑھتی عمر اور سکڑتی ہوئی آبادی صرف جاپان کے شاہی خاندان کو ہی پریشان کرنے والا بحران نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں سال کی پہلی ششماہی میں شرح پیدائش 1969 کے بعد سب سے کم ہو گئی۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی شرح افزائش یعنی ایک جاپانی خاتون کی زندگی میں متوقع بچوں کی اوسط تعداد  بھی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ گذشتہ سال جاپان صرف 727,277 بچوں نے جنم لیا۔ ملک میں فرٹیلٹی کی شرح بھی 1.26 سے کم ہو کر صرف 1.20 فیصد تک رہ گئی جو کہ مستحکم آبادی کے لیے درکار 2.1 کی شرح سے کافی نیچے ہے۔

حکومت نے 2024 کے بجٹ میں اس مسٔلے سے نمٹنے کے لیے 5.3 ٹریلین ین (تقریباً ساڑھے 28 ارب پاؤنڈ) مختص کیے ہیں تاکہ بچوں کی پرورش کرنے والے یا بچوں کے متوقع والدین کے لیے مالی مدد کو بہتر، بچوں کی دیکھ بھال کی سروس تک رسائی کو وسیع کیا اور والدین کی زچگی کے دوران چھٹیوں کے فوائد کو بڑھایا جا سکے۔ حکومت نے ایسے اقدامات بھی تجویز کیے جن کا مقصد خواتین کو دیہی علاقوں میں جانے پر آمادہ کرنا ہے تاکہ شادی کی کم شرح کو بڑھایا جا سکے جو شرح پیدائش میں کمی کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔

ان اقدامات کی مخالفت کرنے والوں نے نشاندہی کی ہے کہ ان اقدامات کا مقصد زیادہ تر شادی شدہ جوڑوں کو فائدہ پہنچانا ہے جو بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا جن کے پہلے سے بچے ہیں لیکن وہ یہ جاننے کی کوشش نہیں کر رہے کہ نوجوان شادی کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں۔

نومورا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ماہر معاشیات تاکاہائید کیوچی نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا: ’سبسڈی میں اضافے جیسے آسان معاشی اقدامات سے پیدائش میں کمی کا سنگین مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے گھروں اور کام کی جگہوں پر روایتی صنفی کرداروں کی حمایت کرنے والی قدامت پسند ذہنیت کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سروے سے معلوم ہوا ہے کہ نوجوان جاپانی مردوں اور خواتین کو ملازمت کے کم مواقع اور ضروریات زندگی کی بلند قیمتوں کی وجہ سے شادی کرنے یا بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

جاپان میں کام کی جگہوں پر صنفی کردار کے بارے میں روایتی اور سخت ضوابط، جہاں کچھ کام کی جگہیں ہی ملازمت کی ٹائمنگ میں لچک یا والدین، خاص طور پر مردوں کو، زچگی کی چھٹیاں دیتی ہیں، جس سے کام کرنے والی ماؤں پر غیر متناسب بوجھ پڑتا ہے۔‘

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سکیورٹی ریسرچ کے اندازوں کے مطابق جاپان کی آبادی 2070 تک تقریباً 30 فیصد کم ہو کر آٹھ کروڑ 70 لاکھ ہو جائے گی، جس میں ہر 10 میں سے چار افراد 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہوں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل