گینگ مین مدد علی جمالی کو پاکستان ریلویز کی جانب سے ٹرین حادثہ ’روکنے‘ پر 50 ہزار روپے نقد انعام اور تعریفی سند دی گئی تاہم ٹرین ڈرائیور کا دعویٰ ہے کہ حادثے سے بچاؤ میں گینگ مین کا کوئی کردار نہیں تھا۔
مدد علی پاکستان ریلویز کے گینگ مین ہیں یہ ٹرین آنے پر پھاٹک بند کرتے ہیں اور ٹرین گزر جانے کے بعد پھاٹک کو معمول کی ٹریفک کے لیے کھول دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چند روز قبل انہوں نے ’اپنی جان پر کھیل کر‘ کراچی سے لاہور آنے والی مسافروں سے بھری شالیمار ایکسپریس کو نواب شاہ سے کچھ دور پہلے ایک بڑے حادثے سے بچا لیا۔
تاہم اسی ٹرین کے ڈرائیور عبدالغفار نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے ٹرین کو بروقت ایمرجنسی بریک لگا کر روکا اور انہوں نے مدد علی کو ’دیکھا بھی نہیں تھا۔‘
اسی سلسلے میں جب پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈرائیور کے دعوؤں کی تردید کی۔
اس حادثے سے بچاؤ کے بعد مدد علی کی اس بہادری کو پاکستان ریلویز نے سراہا اور سی ای او عامر علی بلوچ نے ان کے لیے 50 ہزار روپے نقد انعام اور تعریفی سند کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان ریلویز نے معروف کارٹونسٹ خالد حسین سے مدد علی کا ایک خاکہ بھی بنوایا جس میں انہیں سُپر مین اور بیٹ مین کے درمیان پہلی پوزیشن پر کھڑے دکھایا گیا ہے۔
لیکن یہ سپر ہیرو پاکستان ریلویز کے عارضی ملازم ہیں اورانعام سے زیادہ پکی نوکری کی خواہش رکھتے ہیں۔
مدد علی کون ہیں اور سپر ہیرو کیسے بنے؟
پاکستان ریلویز کے گینگ مین مدد علی 36 برس کے ہیں اور نواب شاہ سے 16 کلو میٹر دور ایک گوٹھ میں رہتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مدد علی نے بتایا کہ ان کے چھ بچے ہیں پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو ذہنی معزور ہے۔
32 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے مدد علی روزانہ موٹر سائیکل پر اپنے کام پر جاتے ہیں اور گذشتہ سات برس سے پاکستان ریلویز میں گینگ مین کے طور پر عارضی ملازم ہیں۔
مدد علی جمالی نے اس واقعے کو کچھ یوں بیان کیا: ’جہاں میری ڈیوٹی ہے وہاں پھاٹک کے سامنے گولائی ہے جیسے مجھے ٹرین دکھائی دیتی ہے میں پھاٹک بند کر دیتا ہوں۔ اس دن بھی میں نے ٹرین کو آتے دیکھ کر ایک پھاٹک بند کیا، دوسرا بند کرنے جا رہا تھا تو دیکھا کہ ایک ریت سے بھرا ٹرک پھاٹک سے اندر آرہا ہے۔ میں نے اسے روکا اس کے ڈرائیور سے منہ ماری بھی ہوئی لیکن اس نے ایک نہ سنی اورزبردستی ٹرک چلا دیا اور ٹرک وہاں الٹ گیا۔‘
مدد علی نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’ٹرک ٹریک پر پھنس چکا تھا اور اس کے نکلنے کا امکان نہیں تھا۔ میں نے اسے وہیں چھوڑا اور میرے ذہن میں آیا کہ یہ بہت بڑا نقصان ہونے جا رہا ہے۔ میں لال جھنڈی لہراتے ہوئے ٹرین کی جانب بھاگ پڑا اور اس کے بالکل قریب پہنچ کر میں پٹری سے اتر گیا۔‘
مدد علی کے مطابق ٹرین ڈرائیور نے انہیں دیکھ لیا تھا۔
’میں تین سے چار منٹ ٹریک پر بھاگا، ڈرائیور نے بھانپ لیا تھا کہ کوئی خطرہ ہے اس لیے انہوں نے بھی فوری ٹرین کی رفتار آہستہ کر لی۔ ٹرین ٹرک سے بالکل تھوڑی سی ٹکرائی جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔‘
مدد علی کہتے ہیں کہ ’ٹرین کی جانب بھاگتے ہوئے مجھے بہت خوف بھی آیا کہ کہیں میں خود اس کی زد میں نہ آجاؤں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا نے بتایا: ’جس جگہ حادثہ ہوا وہاں 100 کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے ٹرین کا چلنا ممنوع ہے اس لیے شالیمار ایکسپریس کم از کم بھی 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے وہاں سے گزر رہی تھی جسے مدد علی نے بہادری دکھاتے ہوئے روکا اور ایک بڑا حادثہ ہونے سے بچا لیا۔‘
مدد علی نے بتایا: ’جب ٹرک ٹریک پر پھنسا تو ٹرک ڈرائیوروہاں سے بھاگ نکلا۔ جب ٹرین رکی تو میں نے ہیڈ کوارٹر فون کر کے اطلاع دی کہ یہاں یہ مسئلہ ہو گیا ہے۔‘
مدد علی انعام ملنے پر خوش تو ہیں لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ ’ پاکستان ریلویز میں عارضی ملازم ہوں میری تنخواہ 32 ہزار روپے ہے اگر یہ میری نوکری پکی کر دیں تو میرے گھر میں بھی خوشیاں آجائیں گی۔‘
تصویر کا دوسرا رخ
مدد علی کی کہانی تو آپ نے پڑھ لی لیکن ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ جس ٹرین کو مدد علی کے بقول انہوں نے جان پر کھیل کر روکا اس ٹرین کو چلانے والے ڈرائیور عبدالغفار نے ٹرین کے اندر سے کیا دیکھا؟
ڈرائیور غفار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’مدد علی غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں میں نے انہیں ٹریک پر بھاگتے ہوئے نہیں دیکھا البتہ وہ ٹریک کے پاس لال جھنڈی لیے ضرور کھڑے تھے۔‘
غفار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’جہاں ایکسیڈنٹ ہوا اس سے پیچھے گولائی میں ٹریک ہے، 294/1112 پر گاڑی سیدھی ہوتی ہے، 295/1112 پر ٹرک کھڑا تھا یہ تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ جہاں سے گاڑی نظر آتی ہے۔ میری ٹرین 80 کلو میٹر کی رفتار سے چل رہی تھی اس رفتار پر اگر گاڑی کو بریک لگائیں گے تو ایک کلو میٹر کا فاصلہ پچاس سیکنڈ میں طے ہو گا۔ بریک کی وجہ سے سپیڈ چونکہ کم ہوئی تو گاڑی ٹرک تک ایک سے ڈیڑھ منٹ میں پہنچی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ٹرک ٹریک کے قریب سے بالکل تھوڑا سا تقریباً ایک سے ڈیڑھ فٹ اندر تھا کہ یہ جانچنا بھی مشکل تھا کہ وہ ٹریک پر ہے بھی یا اس سے باہر ہے۔
’بطور ڈرائیور ہماری نظریں سگنل پر ہوتی ہیں لیکن اس دن رسیپشن ڈاؤن تھا اس لیے جیسے ہی میری نظر ٹرک پر پڑی میں نے ایمرجنسی بریک لگا دی۔‘
ان کے مطابق: ’میری ٹرین سائڈ سے ٹرک سے ٹکرا کر ایک انجن اور دو کوچز پاس کرنے کے بعد رکی۔ پچاس سیکنڈ کے راستے پر وہ کیسے بھاگ سکتے تھے؟‘
انہوں نے بتایا کہ ٹرین کی رفتار 80 کلو میٹر تھی، ’ایمرجنسی بریک لگانے کے بعد ہم بے بس ہوتے ہیں اور کوئی بریک نہیں ہوتی، ایمرجنسی لگانے کے بعد گاڑی کتنی دیر میں کھڑی ہوتی ہے یہ نہیں کہا جا سکتا یا وہ ٹکراتی ہے ہم یہ نہیں جانتے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا اس کے بعد۔‘
انہوں نے بتایا کہ شالیمار ایکسپریس کی 18 بوگیاں ہوتی ہیں جبکہ اس میں ایک ہزار یا اس سے بھی زیادہ مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں۔
پاکستان ریلویز کے ترجمان بابر رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں آپریشنل لائنز پر لیول کراسنگز کی بات کریں تو مرکزی لائنز پر وہ پھاٹک جہاں کوئی ملازم موجود نہیں ان کی تعداد 573 اور وہ کراسنگز جہاں کوئی موجود نہیں ہوتا وہ 140 ہیں۔
بابر رضا نے مزید بتایا، ’رواں برس حادثوں کی بات کریں تو وہ پھاٹک جہاں کوئی موجود نہیں تھا وہاں مسافر ٹرینوں کو آٹھ حادثات پیش آئے جبکہ جہاں پھاٹک پر کوئی موجود تھا وہاں دو حادثے پیش آئے ہیں۔‘