پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ماڈرن کرکٹ سے روشناس ہونے اور موجودہ سسٹم کی فرسودگی کو ختم کرنے کے لیے پی ایس ایل کی طرز پر 50 اوورز پر مشتمل ون ڈے چیمپئنز کپ کا انعقاد کررہا ہے۔ مذکورہ کپ 12 ستمبر سے 29 ستمبر تک فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔
اقبال سٹیڈیم کا افتتاح 1978 میں پاکستان کے جدید ترین سٹیڈیم کی حیثیت سے کیا گیا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس اہم گراؤنڈ کو نظر انداز کردیا گیا۔
اس میں گذشتہ 16 سال سے کوئی بین الاقوامی میچ نہیں کھیلا گیا ہے۔ اس کی حالت ہارے ہوئے جواری کی مانند ہے۔ ڈریسنگ روم سے لے کر عوامی سٹینڈز تک زبوں حالی دیواروں پر رقم ہے۔
پی سی بی نے چیمپیئنز کپ کے لیے بھی بحالت مجبوری اسے منتخب کیا ہے کیوں کہ لاہور اور کراچی میں تعمیراتی کام جاری ہے جبکہ راولپنڈی اور ملتان کو انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
فیصل آباد سٹیڈیم میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم چیمپیئنز کپ کے لیے سہولتوں پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے جس سے ایک معیاری ٹورنامنٹ کا تصور اپنے آغاز سے ہی مصلحتوں کا شکار ہو گیا ہے۔
چیمپئنز کپ کے لیے کھلاڑیوں کو پانچ ٹیموں میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر ٹیم کا ایک مینٹور مقرر کیا گیا ہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر وقار یونس، شعیب ملک، ثقلین مشتاق، مصباح الحق اور موجودہ قومی ٹیم کے رکن سرفرازاحمد مینٹور کے فرائض انجام دیں گے۔ سرفراز احمد اپنی ٹیم کی پلیئنگ الیون کا بھی حصہ ہوں گے۔
تمام پانچ ٹیموں نے 20 کھلاڑی ڈومیسٹک کارکردگی کی بنیاد پر منتخب کیے ہیں تاہم متعدد کھلاڑی نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔
پاکستان انڈر 19 کے کپتان سعد احمد اور قائداعظم ٹرافی کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے عبدالفصیح نظر انداز کیے جانے والوں میں شامل ہیں جبکہ ٹیسٹ کرکٹر احمد شہزاد نے سیلیکشن میں اقربا پروری پر کھیلنے سے معذرت کرلی ہے۔
چیمپیئنز کپ کی ٹیمیں
ڈولفنز
سعود شکیل کی قیادت میں ڈولفنز کا سکواڈ کافی متوازن نظر آرہا ہے۔ سرفراز احمد اس کے مینٹور ہیں جبکہ سابق فرسٹ کلاس کرکٹر اقبال امام کوچ ہیں۔ فہیم اشرف، میر حمزہ، صاحبزادہ فرحان، عمر امین، آصف علی، نعمان علی اور سرفراز احمد نمایاں کھلاڑی ہیں۔
نور پورلائنز
سابق ٹیسٹ کپتان وقار یونس کی نگرانی میں لائنز کی ٹیم ایک بھرپور ٹیم نظر آتی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی اس کی قیادت کر رہے ہیں جبکہ عبدالرحمٰن اس کے کوچ ہیں۔ ٹیم کے اہم کھلاڑیوں میں عبداللہ شفیق، امام الحق، عامر جمال، عامر یامین اور خوشدل شاہ ہیں۔
ٹیم میں نوجوان کھلاڑی زیادہ ہیں تاہم فاسٹ بولنگ کا شعبہ زیادہ مضبوط ہے۔ ٹیم کو نورپور ڈیریز سپانسر کر رہی ہے۔
یو ٹی ایم مارخورز
وولوز کے نام سے بنائی جانے والی ٹیم کو ایک نجی یونیورسٹی نے سپانسر کر لیا ہے۔ جس کے بعد نام میں تبدیلی کی گئی ہے۔ مصباح الحق کی نگرانی میں مارخورز کی ٹیم چیمپیئنز کپ کی ایک اہم ٹیم ہے۔ محمد رضوان کی قیادت سے ٹیم سے ایک بھرپور مقابلے کی توقع ہے۔ ٹیم کے کوچ اعجاز جونیئر ہیں جبکہ اہم کھلاڑیوں میں نسیم شاہ، فخر زمان، سلمان علی آغا، افتخار احمد، کامران غلام، شاہنواز دہانی اور زاہد محمود ہیں۔
پینتھرز
شاداب خان پینتھرز کی قیادت کر رہے ہیں جبکہ ان کے والد نسبتی ثقلین مشتاق ٹیم کے مینٹور ہیں۔ عمر رشید ہیڈ کوچ ہیں ٹیم کے اہم کھلاڑیوں میں صائم ایوب، اسامہ میر، حیدر علی اور عثمان خان ہیں بظاہر ٹیم کمزور نظر آتی ہے تاہم نوجوان کھلاڑیوں کی کثرت کے باعث ٹیم غیر متوقع نتائج دے سکتی ہے۔
سٹالینز
شعیب ملک کی نگرانی میں سٹالینز کی ٹیم اس ٹورنامنٹ کی اہم ٹیم ہے کیوں کہ محمد حارث کی کپتانی میں بابراعظم، شان مسعود، حارث رؤف اور ابرار احمد جیسے ٹیسٹ کرکٹرز اس کا حصہ ہیں۔ شعیب ملک اس کے مینٹور ہیں حسین طلعت محمد علی اور اعظم خان کی شمولیت سے یہ ٹیم ٹورنامنٹ کی فیوریٹ ہے۔
ٹورنامنٹ کا افتتاحی میچ جمعرات کو یوٹی ایم مارخور اور پینتھرزکے درمیان ہوگا اور فائنل 29 ستمبر کو کھیلا جائے گا۔
ٹورنامنٹ کے لیے منتظمین متعدد ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر لائیو دکھانے کے مفت معاہدے اور سپانسرز نہیں ڈھونڈ سکے ہیں۔
ٹورنامنٹ کے فاتح کے لیے تین کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے جو ٹورنامنٹ کی پبلسٹی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔
مینٹور کا کردار
مینٹور کا تصور زیادہ پرانا نہیں ہے۔ مینٹور کا تقرر عام طور پر ایک علامتی کردار ہوتا ہے۔ جس کاٹیم میں عمل دخل کم ہوتا ہے۔ وہ بوقت ضرورت مشورے دے سکتا ہے لیکن چیمپیئنز کپ میں ٹیم سے پہلے مینٹورز کا اعلان کیا گیا ہے جس سے ایک تاثر مل رہا ہے کہ مخصوص لوگ نوازے جارہے ہیں۔
سرفراز احمد کا مینٹور اور کھلاڑی کی حیثیت سے ایک وقت میں کام کرنا ایک انوکھی مثال ہے۔ وہ جب خود کھیل رہے ہوں گے تو باقی کی کیا رہنمائی کریں گے۔
کیا یہ ٹورنامنٹ فائدہ مند ہوگا؟
پاکستان کرکٹ نے گذشتہ ایک سال میں جس تیزی سے پستی کی طرف سفر کیا ہے اس نے سب کو حیران کردیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیم نے صرف بڑی ٹیموں سے شکست نہیں کھائی بلکہ وہ بھی گھر میں شکست دے کر گئے جو کسی گنتی میں نہیں تھے۔
پاکستان کا اگلا ہدف انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہے۔ ٹیسٹ سیریز کا معیار اور مزاج بالکل الگ ہوتا ہے۔ ایک روزہ میچوں کا اس موقع پر انعقاد اس سیریز کے لیے کارگر نہیں ہوگا لیکن پاکستان کو نومبر میں آسٹریلیا اور دسمبر میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنی ہے جس کے لیے یہ ٹورنامنٹ ایک اچھی مشق ہوسکتا ہے۔
اگرچہ چیئرمین پی سی بی نے اس ٹورنامنٹ کا مقصد نئے ٹیلنٹ کی تلاش اور پرورش قرار دیا ہے لیکن سینٹرل کنٹریکٹ میں شامل کھلاڑی اور قومی ٹیم کے ساتھ مسلسل منسلک رہنے والے کھلاڑیوں کی موجودگی میں نوجوان کھلاڑیوں جو موقع ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
پاکستان ٹیم کی گذشتہ ایک سال میں بدترین کارکردگی نے سینیئر کھلاڑیوں کی قلعی کھول دی ہے لیکن پی سی بی انتظامیہ نے ایک بار پھر ان ناکام کھلاڑیوں کو ہی پانچوں ٹیموں کا حصہ بنایا ہے۔
اگرچہ چیمپیئنز کپ کے باعث فیصل آباد کے عوام میں جوش و خروش ہے اور ٹورنامنٹ سے پہلے ہی مداح اپنے ہیروز کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سٹیڈیم کے چکر لگا رہے ہیں لیکن اجڑے ہوئے میدان میں سہولتوں کے فقدان نے کرکٹ کے مداحوں کی میچوں کے دوران حاضری کو مشکل بنا دیا ہے۔
سخت گرمی میں اوپن ایئر سٹینڈز میں سورج کی تپش میں تماشائیوں کا گھنٹوں بیٹھنا ایک مشکل ترین امر ہوگا۔
چیمپئینز کپ کرکٹ کے حوالے سے ایک اچھی کوشش ہے لیکن کیا یہ ٹورنامنٹ بین الاقوامی معیار کے کرکٹر پیدا کر سکے گا؟