جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں قومی اسمبلی کے حلقے 171 سے ضمنی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار مخدوم طاہر رشید الدین کی بھاری اکثریت سے جیت کے بعد ان کی پارٹی کا پلڑا بھاری ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ نشست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت سے آٹھ فروری کے عام انتخابات میں ممتاز مصطفیٰ نے جیتی تھی۔ تاہم ان کی کچھ عرصہ پہلے وفات کے بعد اس سیٹ پر جمعرات کو ضمنی انتخاب ہوا۔
اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے نہ صرف کامیابی اپنے نام کی بلکہ کل ووٹ بھی عام انتخابات میں جیتنے والے امیدوار سے کافی زیادہ حاصل کیے ہیں۔
این اے 171 میں ضمنی انتخاب کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پیپلزپارٹی کے مخدوم طاہر رشید الدین نے ایک لاکھ 16 ہزار 429 ووٹ لیے۔ جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے امیدوار حسان مصطفیٰ کو صرف 58 ہزار 251 ووٹ مل سکے۔ جبکہ آٹھ فروری کے انتخاب میں ممتاز مصطفیٰ کو کل ایک لاکھ تین ہزار 832 ووٹ ملے تھے۔
تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے سیکریٹری جنرل اصغر جوئیہ کے مطابق: ’ریاستی مشینری اور دھاندلی کے ذریعے اس نشست پر ہماری دوبارہ کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ہم نتائج تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس الیکشن کو چیلنج کیا جائے گا۔‘
پیپلز پارٹی کے سابق مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات میاں شمس نے کہا کہ، ’کوئی ایک الیکشن بتائیں جہاں پی ٹی آئی کو شکست ہوئی اور انہوں نے نتائج تسلیم کیے ہوں۔ اس جماعت کا وطیرہ بن چکا ہے کہ جب بھی ہارتے ہیں دھاندلی دھاندلی کا رونا روتے ہوئے شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔‘
قومی اسمبلی کے حلقہ 171 میں کل ووٹرز کی تعداد پانچ لاکھ 16 ہزارسے زیادہ ہے۔ جبکہ 301 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے تھے۔
پولیس کی جانب سے سکیورٹی کے سخت انتطامات کیے گئے تھے اور 27 سو سے زائد اہلکاروں کو الیکشن ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا تھا۔ فارم 45 کے مطابق متعلقہ ریٹرننگ افسر نے نتائج جاری کر دیے ہیں۔
ایک نشست جیت کر پیپلز پارٹی کو دو سیٹیں کیسے ملیں گی؟
پی پی پی رہنما میاں شمس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’این اے 171 کی نشست پر کامیابی کے بعد پی پی پی کی پنجاب سے قومی اسمبلی کی نشستیں آٹھ ہو چکی ہیں۔ پہلے سات تھیں اس لیے خواتین کی ایک مخصوص نشست ملی تھی۔ چار نشستوں پر ایک مخصوص نشست ملنے کے فارمولے کے تحت اب ایک مخصوص نشست مزید مل جائے گی۔‘
پی پی پی رہنما میاں شمس نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن کو دوسرا نام ثمینہ گرکی کا دیا تھا۔ لہذا اب وہ مخصوص نشست پر ایم این اے بن جائیں گی۔ لہذا حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے جے یو آئی کی حمایت کے بعد دو نشستیں ملنے پر صرف ایک آزاد رکن کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس بار پیپلز پارٹی کی پنجاب سے قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں ہو چکی ہیں جو 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ہیں کیونکہ اس وقت پانچ نشستیں ملی تھیں۔ لہذا پیپلز پارٹی پنجاب میں مقبولیت حاصل کرتی جا رہی ہے۔ ہمارا جو ووٹر پی ٹی آئی کی طرف گیا تھا وہ واپس آنا شروع ہوگیا ہے۔
‘جب بھی پنجاب سے پیپلز پارٹی کو 20 سے 25 نشستیں قومی اسمبلی میں ملیں تو حکومت پی پی پی کی بنتی رہی ہے۔ لہذا ہم آئندہ عام انتخابات میں پنجاب سے قومی اسمبلی میں 20 سے زائد نشستیں جیتنے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔‘
اصغر جوئیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک بھر میں ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں ہم فسطائیت کا شکار ہیں۔ جیسے پی ڈی ایم کو لایا گیا سب کو معلوم ہے اب بھی جس طرح ان کے شکست کھانے والے امیدواروں کو دوبارہ گنتی میں ووٹ مسترد کر کے جتوایا جا رہا ہے۔ سب عوام دیکھ رہے ہیں انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ 101 تعداد آزاد اراکین کی ہے۔
مسلم لیگ ن کے ارکان 75 ہیں، پیپلز پارٹی کے ایک مزید رکن کا اضافہ ہونے سے تعداد 55 ہوجائے گی۔
متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین کی تعداد 17 ہے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے چار ارکان ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ق اور استحکام پاکستان پارٹی کے تین، تین اراکین منتخب ہو کر ایوان میں موجود ہیں۔
اسی تناسب سے مخصوص نشستیں بھی ان جماعتوں کو حاصل ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے پی ٹی آئی کی اضافی مخصوص نشستیں نظر ثانی اپیلوں کے فیصلے سے مشروط ہیں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے؟
تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے سیکریٹری جنرل اصغر جوئیہ کے بقول، ’سب جانتے ہیں کہ ملک بھر کے عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ پنجاب میں بھی ہماری عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں ہیں۔ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں ہماری مقبولیت اور قبولیت کم ہو رہی ہے۔
’رحیم یار خان میں ہمارے رہنماؤں کو اغوا کیا گیا پولیس کھڑی کر کے پولنگ سٹیشنز پر ہمارے ووٹرز کو روکا گیا۔ ہمارے کیمپ اکھاڑ دیے گئے پھر بھی ہماری کامیابی کو دھاندلی سے ٹھپے لگا کر شکست میں تبدیل کرنا پڑا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چند ماہ پہلے ہونے والے انتخابات میں ہمارے امیدوار کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ چند ماہ میں حکومت نے ایسا کون سا کارنامہ کیا کہ پیپلز پارٹی جیسی جماعت کے امیدوار کو عام انتخابات کے مقابلے میں 50 ہزار سے بھی زائد ووٹ مل گئے؟
یہ سب دھاندلی کا نتیجہ ہے ہم اسے مسترد کرتے ہیں ان نتائج کو عدالت میں چیلنج کر رہے ہیں۔ اگر شفاف تحقیقات ہوئیں تو سارا کھیل بے نقاب ہوجائے گا۔‘
پی پی پی رہنما میاں شمس کے بقول: ’ملک بھر کی طرح پنجاب میں بھی عوام حکمران جماعتوں پر اعتماد کر رہے ہیں۔
’فروری آٹھ کے عام انتخابات میں کئی وجوہات تھیں کہ تحریک انصاف کے امیدوار جیت گئے۔ لیکن عام انتخابات کے فوری بعد پنجاب میں خالی ہونے والی 12 سیٹوں پر الیکشن ہوا۔ یہ سب نشتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے امیدواروں نے دوبارہ جیت لیں۔‘
ان کے مطابق، ’جیسے جیسے سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور پروپیگنڈا پھیلانے کا نیٹ ورک پکڑا جا رہا ہے تحریک انصاف کی جعلی مقبولیت کا پول کھلتا جا رہا ہے۔ پنجاب میں بزدار یا چوہدری پرویز الہی نے کونسا کمال دکھایا جو پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کا سبب سمجھتی ہے؟‘