پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے ایکشن کمیشن آف پاکستان کو فروری 2024 کے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کی دستیابی کے علاوہ کئی امور پر تجاویز پیچ کی ہیں۔
مرکزی ترجمان فیصل کریم کنڈی نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک وفد نے پیر کو چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی، جس میں سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلانے کی اجازت دینے کا بھی کہا گیا۔
’ہم نے سوشل میڈیا پر الیکشن مہم نہ چلانے دینے کا خدشہ بھی ای سی پی کے سامنے رکھا ہے۔ پاکستان کی عوام سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ دے گی اور جس پارٹی کو عوام منڈیٹ دے گی ہم اسے سپورٹ کریں گے۔‘
سینیٹر تاج حیدر، سعید غنی، ناصر حسین شاہ، فیصل کریم کنڈی، اور حسن مرتضیٰ پر مشتمل پیپلز پارٹی کے وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے انتخابات سے متعلق امور پر گفتگو کی۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ’ہم بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر یہاں آئے ہیں۔ ہم نے واضح بتایا کہ الیکشن میں تاخیر برداشت نہیں کرے گے۔ ہمیں بتایا گیا کہ جلد الیکشن شیڈول جاری کیا جائے گا۔ ہم نے کچھ اپنی شکایات بھی سامنے رکھیں، جس پر الیکشن کمیشن نے مثبت جواب دیا۔
’پیپلز پارٹی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھرپور اعتماد ہے۔ عوام جس کو بھی مینڈیٹ دے گی پیپلز پارٹی اس کا احترام کرے گی۔‘
فیصل کریم کنڈی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ن لیگ والے کبھی کہتے ہیں بات ہو چکی ہے کبھی میچ فکس ہونے کا کہتے ہیں۔ ن لیگ نے ہمشہ اداروں کو سیاست میں دھکیلا ہے۔ ہم نے ایک سیلیکٹڈ اور لاڈلے کو بھگتا ہے ہم مزید ایک سیلیکٹڈ لاڈلے کو نہیں بھگت سکتے۔‘
سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’آج کے وفد میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے۔ آج کی ملاقات بہت اچھی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کسی صورت الیکشن میں تاخیر نہیں چاہتی۔ ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے جو الیکشن تاخیر کی درخواستیں آئیں ہیں وہ سماعت کے بعد ناقابل سماعت قرار دی جائیں گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمیں کچھ ٹرانسفرز اور پوسٹنگز پر تحفظات تھیں اس سے متعلق بتایا۔ پوسٹل بیلٹ کے بارے میں ہماری تجویز تھی کہ اس کو ویب سائٹ پر جاری کیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر سعید غنی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ میں آئی جیز، ایس پیز اور ایس ایس پیز سمیت سب کا تبادلہ ہوا ہے۔ پورے سندھ میں کوئی افسر نہیں چھوڑا جو پیپلز پارٹی کے دور میں تھا۔
’حلقہ بندیوں کے لیے ہر ضلع کے لیے الگ کمیٹیاں تھیں۔ ان حلقہ بندیوں میں صوبائی الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں تھا۔ حلقہ بندیوں پر سب سے زیادہ اعتراضات پیپلز پارٹی کی جانب سے دائر ہوئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سب مخالف جماعتوں کو پتہ ہے کہ سندھ میں ان کا حشر برا ہونے والا ہے۔ اس الیکشن میں بھی بہت لوگ پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی کی سیاست مر چکی ہے۔ ایم کیو ایم سب سے اتحاد کی بھیک مانگ رہی ہے۔‘
چیف الیکشن کمشنر سے مختلف سیاسی جماعتوں کے وفود کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
گزشتہ پیر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے وفد نے ملاقات کی تھی، جس میں ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں اور لیول پلیئنگ فیلڈ پر تحفظات الیکشن کمیشن کے سامنے رکھے اور کہا تھا کہ ’سندھ تقسیم ہو چکا صرف اعلان باقی ہے۔ اگر ملک میں صاف شفاف انتخابات نہیں ہوئے تو بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔‘