پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس آج کی کارروائی کے بعد کل تک ملتوی کر دیے گئے۔
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے آج کی کارروائی کے بعد اجلاس کل صبح 11:30 تک ملتوی کر دیا دوسری جانب سینیٹ آف پاکستان کا اجلاس کل شام چار بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
آج کے اجلاس میں حکومتی اتحاد کے رہنماؤں خواجہ آصف، حنیف عباسی، بلاول بھٹو زرداری سمیت کئی اور رہنماؤں نے اظہار خیال کیا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے بیرسٹر گوہر علی خان اور عمر ایوب خان نے تقاریر کیں۔
دونوں جانب سے ایک دوسرے پر تنقید بھی کی گئی۔
آج قومی اسمبلی کے اجلاس کے جاری کردہ ایجنڈے میں اس آئینی ترمیمی بل کا ذکر موجود نہیں تھا، لیکن اگر اسے پیش کیا جاتا ہے تو اسے منظور کروانے کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ووٹ درکار ہوں گے، جو حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس نہیں۔
حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے دو تہائی اکثریت، یعنی 224 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے کل نمبرز پر نظر ڈالیں تو اس وقت ان کے پاس 213 ووٹ موجود ہیں۔
ان میں مسلم لیگ (ن) کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔
اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پاس پانچ ووٹ، استحکام پاکستان پارٹی کے چار، جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ضیا) کا ایک، ایک رکن شامل ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کے آٹھ ارکان ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمان کی جماعت حکومت کا ساتھ دیتی ہے تو یہ تعداد 221 ہو جائے گی لیکن اس کے باوجود حکومت دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔
حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے آزاد ارکان کی بھی ضرورت ہوگی۔
اسی طرح سینیٹ میں آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو 64 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی جبکہ اس وقت اس کے پاس 55 ارکان کی حمایت ہے۔
ان میں مسلم لیگ (ن) کے 19، پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار، متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے تین، اور پانچ آزاد سینیٹرز شامل ہیں۔
سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے پانچ ارکان کی حمایت کے ساتھ حکومت کو مزید چار ووٹ درکار ہوں گے۔
مجوزہ آئینی ترمیم کے پیش نظر حکومتی اتحادیوں نے اپنے تمام ارکان اسمبلی اور سینیٹ کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت دی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار محمد یوسف کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم لانے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا تاہم صورت حال کو دیکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ ’نمبرز پورے ہوں گے تو بل پاس ہو گا۔‘
انہوں نے ہفتے کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بل سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’جو بل پاس ہو رہا ہے یہ مخصوص نہیں۔ یہ ایک ایسا بل ہے جس میں اصلاحات کی بات ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جو نمبر کے متعلق افواہیں ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ نمبرز پورے ہوں گے تو بل پاس ہوگا۔ اس چیز میں آپ کو فکر کی ضرورت ہی نہیں۔‘
عدلیہ سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے جبکہ ہائی کورٹس کے ججز کی مدت ملازمت 62 سے 65 سال کی تجویز ہے۔
امیر جماعت اسلامی نعیم الرحمن نے حکومت پر سپریم کورٹ میں ’اپنی مرضی کے ججز لگانے‘ کا الزام لگاتے ہوئے موجودہ حالات میں آئینی ترمیمی بل کو ملک کے لیے ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نعیم الرحمن نے ہفتے کو لاہور میں ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے سپریم کورٹ اور حکومتی معاملات سے متعلق بات کرتے ہوئے ججھک ہوتی تھی مگر اب کھلم کھلا کہا جاتا ہے کہ بعض ججز حکومت کے ساتھ ہیں اور کچھ اپوزیشن کے ساتھ۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت اس معاملے کو نہ چھیڑے کیوںکہ موجودہ حالات میں بل ملک کے لیے خطرناک ہوگا۔‘
پاکستان کی قومی اسمبلی نے منگل تین ستمبر کو ججز کی تعداد سے متعلق بل موخر کر دیا تھا جس میں سپریم کورٹ کے ججز کی کل تعداد 23 کرنے کا کہا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل بل کی کاپی کے مطابق سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد) ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنا ہے۔
’اس ایکٹ کو سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد) ترمیمی بل 2024 کہا جائے گا جو فوراً نافذ ہو جائے گا۔ ایکٹ کے سیکشن دو کے متبادل کے طور پر سپریم کورٹ ججوں کی تعداد ایکٹ کے تحت چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 22 ہو گی۔‘